Mera Dagestan
میرا داغستان
آج کی نوجوان نسل اپنے وطن پاکستان سے متنفر ہوتی جا رہی ہے اور اپنی مادری زبان چاہے پنجابی ہو یا اردو اس سے بھی بیزار ہے۔ ان کے گلے شکوے جائز بھی ہو سکتے ہیں لیکن وطن اور زبان سے بیزاری کا کوئی جواز نہی اسلئے اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے اپنے وطن سے اپنی زبان سے اور اپنی روایات سے محبت کریں تو انہیں رسول حمزہ توف کی کتاب "میرا داغستان" ضرور پڑھائیں بلکہ پہلے خود ضرور پڑھیں اور پھر بچوں کو پڑھائیں۔
میرا داغستان صرف کتاب نہیں بلکہ محبت کا سفر نامہ ہے رسول حمزہ توف کو اپنی مادری زبان سے عشق تھا آپ نے یہ کتاب بھی اپنی مادی زبان میں لکھی تھی اور پھر اس کا ترجمہ دنیا جہان کی زبانوں میں ہوا، رسول حمزہ توف کی یہ کتاب وطن سے محبت کی لازوال داستان ہے۔
اسے اپنے داغستان سے عشق ہے، اپنے گاؤں سدا کی ہر چیز اسے اپنی جان سے عزیز تر ہے وہ چاہے اونچے اونچے پہاڑ ہوں، کچے گھروں سے اٹھتا ہوا دھواں ہو، چراگاہوں میں جا بجا بھیڑوں کے غول ہوں یا پہاڑوں کی پگڈنڈیوں پہ کھلنے والے پھول ہوں اسے اپنے گاوں سدا کے ذرے ذرے سے عشق ہے۔
یہ کتاب اجمل اجملی نے ترجمہ کی ہے جہلم بک کارنر والوں نے چھاپی ہے، انتہائی دیدہ زیب کاغذ استعمال کیا گیا ہے ان کی چھاپی ہوئی ساری کتابیں ہی بہت عمدہ ہوتی ہیں بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ اردو ادب کی ترقی میں جہلم بک کارنر کی خدمات قابل ستائش ہیں، اللہ کریم انھیں اجر عظیم دیں۔
رسول حمزاتوف روسی علاقے داغستان کے مشہور شاعر، نثر نگار، مترجم، سیاسی و سماجی شخصیت تھے، آپ کا تعلق داغستان کی آوار قوم سے تھا جو خطہ کا کیشیا کی مسلمان قوموں میں سے ایک ہے۔ آپ کے والد حمزہ سدا سا بھی داغستان کے نمایاں اور اعزاز یافتہ آوار شاعر، ڈرامہ نگار، مترجم اور سیاسی شخصیت تھے۔
رسول حمزاتوف کی پیدائش داغستان کے شہر حنزہ کے قریب ایک گاؤں سدا میں 1923 میں ہوئی، پیدائش کے وقت آپ کا نام رسول رکھا گیا، جبکہ اپنی مادری زبان آوار میں حمزة الرسول کے نام سے جانا گیا۔
اپنی مادری زبان سے اتنی محبت کرتے تھے کہ لکھتے ہیں کہ میں اس طرح لکھنا چاہتا ہوں کہ میرے تمام اشعار، میری یہ کتاب یا جو کچھ میں لکھوں، میری ماں اور میری بہن سمجھ سکیں، اسے عزیز رکھ سکیں اور یہی نہیں بلکہ میرے پہاڑی علاقے کا ایک ایک فرد اور ہر وہ آدمی جو انھیں پڑھے، ان کا مفہوم سمجھ سکے اور انھی پسند کر سکے۔
میں لوگوں کو بور نہیں کرنا چاہتا، میں تو ان میں خوشی بانٹنا چاہتا ہوں۔ اگر میری زبان مسخ ہو جاتی ہے، اپنی حرارت کھو بیٹھتی ہے، لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی ہے، بے کیف ہو جاتی ہے یا مختصر یوں کہوں کہ میں اپنی مادری زبان بگاڑ دیتا ہوں تو یہ میری زندگی کا الم ناک ترین حادثہ ہوگا۔
اپنے گاوں سدا لوٹتے ہیں تو لکھتے ہیں۔
میرے محبوب سدا! میں اس وسیع دنیا سے لوٹ کر تیرے پاس آیا ہوں جس میں ابا کو اتنی ساری خامیاں نظر آئی تھیں۔ میں ساری دنیا میں گھوما پھرا ہوں اور بہت ساری چیزیں دیکھ کرعش عش کر اُٹھا ہوں، اپنے چاروں طرف بکھرے ہوئے حسن کی بہتات نے میری آنکھیں خیرہ کر دیں اس حد تک کہ وہ کسی ایک چیز پر جم نہ پائیں۔
ایک سے ایک شاندار مندر اور ایک سے ایک دل کش چہرے میرے نگاہوں کے سامنے سے گزرے ہیں لیکن مجھے ہر لمحہ اس بات کا یقین ہو رہا ہے کہ کل مجھے آج سے زیادہ خوب صورت مناظر اور حسین چہرے دیکھنے کو ملیں گے، کیوں کہ دنیا بہر حال لا محدود ہے۔
میں ہندوستان کے مندروں سے، مصر کے اہراموں سے، اطالوی محلوں سے معذرت خواہ ہوں۔ امریکا کی شاہراہوں، پیرس کے خیابانوں، برطانیہ کے پارکوں اور سوئٹزر لینڈ کے پہاڑوں سے معافی مانگتا ہوں۔ پولینڈ، جاپان اور روم کی خوب صورت عورتو! مجھے معاف کرنا، میں تم سب کی رعنائیوں سے متاثر ہوا ہوں، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ تمھیں دیکھنے کے بعد میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئی ہوں اور اگر تھوڑی دیر کے لیے میری نبض کی رفتار تیز ہوئی بھی ہے تو اتنی نہیں کہ میرا گلا سوکھ گیا ہو یا ایک پل کے لیے میں ہوش و حواس کھو بیٹھا ہوں۔
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ داغستان کا ایک چھوٹا سا گاؤں وینس، قاہرہ یا کلکتہ جیسے شہروں سے زیادہ خوب صورت ہے؟ یا میں سر پر لکڑیوں کا گٹھا اٹھائے کسی پہاڑی پگڈنڈی سے جس آوار عورت کو گزرتے ہوئے دیکھتا ہوں، وہ اسکینڈے نیویا کی کسی قدآور اور سنہرے بالوں والی دوشیزہ سے زیادہ حسین ہے؟
سدا! میں تیرے کھیتوں میں پھرتا ہوں اور صبح کی ٹھنڈی اوس میرے تھکے پیر دھوتی ہے۔ میں پہاڑی نالے سے نہیں بلکہ اس سوتے سے وہاں منہ دھوتا ہوں جہاں سے وہ پھوٹتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ پیاس لگے تو اس جگہ جا کر پیاس بجھاؤ جہاں چشمہ زمین سے پھوٹتا ہے۔ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے اور خود ابا بھی کہا کرتے تھے کہ انسان کو صرف دو صورتوں میں جھکنا چاہیے کسی بہتے ہوئے چشمے سے پیاس بجھانے کے لیے یا پھر کسی شاخ پر کھلا ہوا کوئی پھول توڑنے کے لیے۔
سدا! تو میرا چشمہ ہے میں تجھ پر جھکتا ہوں اور تیری رعنائیوں سے جی بھر کر اپنی پیاس بجھاتا ہوں۔
اپنے وطن داغستان سے اس قدر محبت کرتے ہیں کہ لکھتے ہیں"داغستان میری ماں ہے۔ جو لوگ مجھ سے الجھنا چاہیں میں انھیں خبردار کرتا ہوں کہ مجھے جو بھی جی چاہے کہہ لو میں برداشت کرلوں گا لیکن میرے داغستان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو پھر ٹھیک نہ ہوگا"۔
داغستان میری محبت ہے، میرا عہد ہے، میری منت و سماجت ہے اور میری دعا ہے۔
داغستان تو اور صرف تو ہی وہ موضوع ہے جو میری تمام کتابوں کا خاص تصور اور میری ساری زندگی کا سرمایہ ہے۔