Junglaat Ko Izzat Do
جنگلات کو عزت دو
جنگلات صرف انسانی زندگی کے لیے اہم نہیں بلکہ ہر ذی جان کے لیے یکساں اہمیت رکھتے ہیں، تقریبا% 75 پرندوں اور جنگلی حیات کا مسکن بھی جنگلات ہی ہیں۔
دنیا کے تقریبا ایک اعشاریہ چھ ارب لوگوں کا انحصار کسی نہ کسی طرح جنگلات پر ہے چاہے وہ خوراک ہو، رہائش ہو یا روزگار۔ جنگلات اور درختوں کی زمیں پہ مثال ایسی ہے جیسے سر پہ بال اگر کسی کے سر پہ بال نہ ہوں تو جتنا بھی خوش شکل ہو جاذب نظر نہیں ہو سکتا، ایسے ہی جنگلات کی غیر موجودگی میں یہ زمین کبھی بھی خوبصورت اور دلکش نہیں ہو سکتی جنگلات کی کٹائی یا جنگلات کے کم ہونے کی وجہ سے درجہ حرارت دن بدن بڑھتا جا رہا ہے سیلاب، طوفان اور سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ پاکستان میں درختوں اور جنگلات کے بے رحم کٹاو کی وجہ سے سیلاب ہر سال تباہی مچاتے ہیں اور سینکڑوں لوگ اور ہزاروں دیگر جاندار مر جاتے ہیں۔
جنگلات کو زمین کی پھیپھڑے کہا جاتا ہے کسی بھی ملک کے کل رقبے کا تقریبا تیسرا حصہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے، فن لینڈ دنیا کا واحد ملک ہے جس کا پچھتر فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہے۔ اس زمین پر جنگلات کی موجودگی زندگی کی ضامن ہے جنگلات نہ صرف آکسیجن پیدا کرنے کا سبب ہیں بلکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جو کہ مضر صحت بھی ہے اور گلوبل وارمنگ کی ایک بہت بڑی وجہ بھی ہے، درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں اور ہوا کو آلودہ ہونے سے بچاتے ہیں اور زمینی کٹاو کو روکنے کا موثر ترین ذریعہ بھی ہیں۔
درختوں اور جنگلات کے بارے میں ہمارا عمومی رویہ یہ ہے کہ ان سے صرف لکڑی حاصل ہوتی ہے جبکہ بہت سے جاندار اور پرندے جنگلات کی ہی مرہون منت ہیں۔ اللہ کریم نے کئی خونخوار اور درندہ صفت حیوانات کو جنگلوں میں اس لیئے سمیٹ رکھا ہے کہ اگر وہ انسانی آبادیوں کی طرف نکل پڑے تو کوئی انسان ان کی درندگی سے محفوظ نہ رہ سکے لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم جنگلات کو کاٹ کر جنگلی حیات کو جنگل سے باہر آنے کی دعوت دے رہے ہیں، نئی نئی ہوسنگ سوسائٹیوں نے جنگلی حیات سے ان کے مسکن چھینے ہیں جس کی وجہ سے جنگلی جانور اکثر قریبی آبادیوں کا رخ کرتے ہیں اور انسانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
قرآن کریم تمام انسانوں کے لیے مکمل ضابطہ حیات ہے جہاں انسانوں کو انسانوں سے صلہ رحمی کی تلقین کی گئی ہے وہیں انسان کو زمینی ماحول کو تباہ کرنے سے بھی روکا گیا ہے، کسی بھی چرند پرند کو نقصان پہنچانے کی سخت مممانت کی گئی ہے، قران مجید میں متعدد بار جنتیوں سے سرسبز باغات کا وعدہ کیا گیا ہے جو اس بات کی وضاحت ہے کہ درخت اور جنگل کتنے ضروری ہیں، درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے نبی پاک ﷺ جب بھی جنگ کے لیے کسی کو بھیجتےتو لازمی تاکید کرتے کہ درختوں اور فصلوں کو بغیر ضرورت کے کبھی بھی کاٹنا نہیں، بہت سی احادیث سے درختوں اور جنگلات کے تحفظ کی رہنمائی ملتی ہے۔
ہم پاکستانی صرف سیاسی، معاشی اور اخلاقی طور پر ہی پسماندہ نہیں ہم ماحولیاتی طور پر بھی بہت زیادہ پسماندہ ہو چکے ہیں ہم یورپ اور امریکہ میں ندی نالوں اور جنگلات کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں کہ وہ حکومتیں اور عام لوگ بھی درختوں سے محبت کرتے ہیں لیکن ایسی کوئی محبت ہمارے اپنے عمل میں نظر نہیں آتی، ہم دکھاوے کے طور پر ہر سال شجرکاری مہم چلاتے اور دل کھول کر وسائل کا ضیاع کرتے ہیں مگر ایسی ساری مہمات کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا، پہلے ہم دیکھتے تھے کہ نہر کے کناروں پر بہت پرانے درخت کیکر اور ٹالیاں مل جاتے تھے مگر اب نہروں کے کنارے بھی ویران ہو چکے ہیں لکڑی مافیہ جہاں کوئی تناور درخت دیکھتا ہے وہیں سے اچک لیتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔
ہمارے شمالی علاقہ جات جو ہرے بھرے جنگلات کی وجہ سے جانے جاتے تھے آہستہ آہستہ ویران ہو رہے ہیں ایک بھرپور مہم کے تحت ہمارے جنگلات بے دردی سے کاٹے جا رہے ہیں کچھ عرصہ پہلے فیری میڈو جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں ایک جگہ ہے بیال کیمپ جہاں سے آگے ناگا پربت کی طرف جایا جاتا ہے وہاں دیودار اور چنار کا بہت گہرا جنگل ہے باہر سے دیکھو تو جنگل گھنا لگے گا جبکہ کافی اندر جا کر بڑے بڑے درختوں کو کاٹ دیا گیا ہے اور لکڑی کے بڑے بڑے ڈھیر لگے ہوئے ہیں وہ لوگ اس کٹی ہوئی لکڑی کو ساتھ ساتھ چلنے والے پانی میں پھینکتے ہیں جو آہستہ آہستہ نیچے چلاس پہنچ جاتی ہے جہاں سے ٹمبر مافیا لکڑی کا کاروبار چلاتی ہے، یہاں صرف فیری میڈو کے دائیں بائیں کے علاقے کا حال نہیں بلکہ پاکستان میں جہاں کہیں بھی جنگلات ہیں وہاں یہی وارداتیں کی جاتی ہیں بہت سی جگہوں پر جان بوجھ کر آگ لگائی جاتی ہے اور اسی آڑ میں درختوں کو کاٹ دیا جاتا ہے۔
کمرشلائزیشن نے جنگلات کا صفایا کر دیا ہے بغیر کسی پلاننگ کے رہائشیں، ہوٹل اور ریسٹورنٹ نے شمالی علاقوں کے قدرتی حسن کا بیڑا غرق کر دیا ہے اور حکومت اور انتظامیہ بجائے جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے مافیا کی معاون بنی ہوئی ہے۔ پاکستان میں جنگلات پہلے ہی بہت کم ہیں ہمارے کل رقبے کا دو اعشاریہ پانچ فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہے جو کہ انتہائی قلیل ہے، بلین ٹری نامی منصوبہ جو کہ بہت شاندار منصوبہ تھا وہ بھی سیاست کی نظر کر دیا گیا۔
درخت لگانا ہم سب کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے ہر ایک کو چاہیے کہ وہ اپنے حصے کا درخت ضرور لگائے اور اپنے دائیں بائیں موجود درختوں کی حفاظت بھی کریں اور اپنے بچوں کو درخت لگانے اور بچانے کی ترغیب دیں اور ان کو بتائیں کہ درخت صرف لکڑی پیدا نہی کرتے بلکہ ہماری زندگیوں کے ضامن ہیں، درخت ہیں تو آکسیجن ہے، اکسیجن ہے تو زندگی ہے۔
آئیں عہد کریں کہ ہم اپنے بچوں کو محفوظ اور آلودگی سے پاک پاکستان دے کر جائیں گے، حکومت وقت کو بھی چاہیے کہ وہ جنگلات کو لگانے اور موجودہ جنگلات کے تحفظ کے لیے بھرپور کوشش کرے اور جنگلات کی کٹائی میں ملوس افراد اور مافیا کی سرکوبی کرے چاہے وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔
سر سبز سیارہ ہم سب کا مسکن ہے اسے جہنم بنانے سے بچانا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے درخت لگانا اور بچانا ہم سب کے ایمان کا حصہ ہونا چاہیے ہم مسلمان ہیں ہمارا یقین ہے کہ نبی پاک ﷺ کا ہر قول سچا ہے آپﷺ نے فرمایا "جو مسلمان دَرخت لگائے یا فَصل بوئے، پھر اس میں سے جو پرندہ یا اِنسان یا چوپایا کھائے تو وہ اس کی طرف سے صَدقہ شُمار ہوگا"۔