Arang Kel Jadui Wadi
ارنگ کیل جادوئی وادی
بچپن میں محمد علی سدپارہ کو اس کی ماں پہاڑوں پر چڑھنے سے منع کرتی تھی تو وہ کہتے تھے ماں میں نہیں جاتا پہاڑ مجھے بلاتے ہیں۔ پہاڑ بھی انہیں بلاتے ہیں جو انہیں جی جان سے چاہتے ہیں ایسے ہی بلاوے ہمیں بھی آتے رہتے ہیں ایسے ہی ایک بلاوے کو آواز دوست سمجھتے ہوئے دوستوں سے مشاورت کی اور ہم پانچ دوست تیار ہو گئے سارے دوست چونکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے چھٹیاں لینے کے لیے کچھ وقت لگا، طے پایا کہ 22 اگست کو شمالی علاقہ جات کا سفر کیا جائے ہماری منزل کبھی بھی طے شدہ نہیں ہوتی ہاں مگر سمت طے ہوتی ہے کہ جانا شمالی علاقہ جات کی طرف ہے، رات 10 بجے ہمارے عزیز دوست منصور چیمہ صاحب کے گھر اکٹھے ہوئے اور حسب عادت انہوں نے کہا کہ مجھے بہت ضروری کام ہے اس لیے میرا جانا مشکل ہے جس پر سب دوستوں نے شدید احتجاج کیا اور ڈرایا دھمکایا کہ آئندہ آپ کو کسی سفر میں شامل نہیں کیا جائے گا دھمکی کام آگئی اور ہم سفر کے لیے روانہ ہو گئے۔
فخر اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ گلوبل فنڈ کے ساتھ کام کرتا ہے، عاصم بھائی ٹیلی کام کے شعبے سے وابستہ ہیں عدیل بھائی کا ٹریول اینڈ ٹور کا کام ہے اور منصور چیمہ صاحب کا تعلق وکالت سے ہے اور وہ اپنے شعبے کے بہترین پروفیشنل ہیں۔ سفر تو شروع ہوگیا لیکن اب بحث اس بات پہ ہو رہی تھی کہ جانا کہاں ہے فخر نے کہا کہ ارنگ کیل چلتے ہیں میں بھی ارنگ کیل کے لیے تیار تھا باقی تین لوگوں کا کہنا تھا کہ ارنگ کیل ہم نے دیکھا ہوا ہم چاہتے ہیں کہ شاران فورسٹ چلتے ہیں جس پر فخر نے کہا کہ ابھی چھ ماہ پہلے ہی تو ہم شاران گئے تھے ہمیں نیلم ویلی کو دیکھنا چاہیے اسی بحث مباحثہ میں ہم اسلام آباد کے قریب پہنچ گئے لیکن ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا تھا منصور صاحب ہمیں یہ کہہ کے قائل کر رہے تھے کہ ابھی پچھلے ہفتے ہی ایک جیپ دریائے نیلم میں گر گئی ہے اور سات لوگ جام بحق ہو گئے ہیں لیکن ہم نے اسے غالب شعر سنایا کہ۔۔
"جس کو ہو دین و دل عزیز وہ تیری گلی میں آئے کیوں"
نہ منصور کی دھمکی کام کر رہی تھی اور نہ غالب کی، ووٹنگ کا فیصلہ ہوا تو ہم نے عاصم کو فلور کراسنگ کے لیے رشوت دی اور جب ووٹنگ ہوئی تو ہم وادی نیلم کی طرف جانے کا فیصلہ کر چکے تھے ہم براستہ مری مظفرآباد کی طرف نکل پڑے رات چار بجے ہم مظفر آباد پہنچے کوہالہ پل کراس کیا ساری رات سفر میں گزری کچھ دیر ایک پٹرول پمپ پہ رکے اور روڈ پہ موجود ایک بیکری سے کھانے کے لیے کچھ چیزیں لیں اور دوبارہ اپنی منزل کی طرف گامزن ہو گئے۔
روڈ اتنی اچھی نہیں تھی جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی جس وجہ سے گاڑی کی سپیڈ کم تھی دریا نیلم کے ساتھ ساتھ ہم کیل کی طرف رواں دواں تھے کیا شاندار مناظر تھے دریائے نیلم کا نیلگوں پانی، بلند و بالا پہاڑ اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا دل کو مسحور کیے ہوئے تھی ہم چونکہ آزاد کشمیر کے علاقہ میں سفر کر رہے تھے اس لیے ہمارے پاکستانی موبائل نیٹ ورک کام نہیں کر رہے تھے کبھی کبھی سگنل آ جاتے تھے کچھ دیر بعد کرنل مظہر کا فون آیا پوچھا کہاں ہو میں نے بتایا کہ ارنگ کیل جا رہے ہیں۔ حال چال پوچھنے کے بعد فون بند ہوا تو مقامی نمبر سے کال آئی نام پتہ پوچھنے پر بتایا کہ میں سپاہی منظور بول رہا ہوں اور ہم آپ کا کیل چیک پوسٹ پہ انتظار کر رہے ہیں آپ لوگوں کا ارنگ کیل میں رہنے کا بندبست ہو چکا ہے یہ سرپرائز کرنل مظہر نے دیا تھا ہم ابھی کیل سے چار گھنٹے کی مسافت پہ تھے۔ کیل پہنچنے تک کوئی 10 کال سپاہی منظور کی طرف سے موصول ہو چکی تھیں کہ ہم چیک پوسٹ پہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔
دریائے نیلم کے اس طرف آزاد کشمیر ہے اور دوسری طرف مقبوضہ کشمیر مطلب آزادی اور غلامی، دکھ اور سکھ میں دریائے نیلم حائل ہے میں سوچ رہا تھا شاید یہ دونوں حصے اکٹھے ہوتے تو کشمیریوں کی زندگی مختلف ہوتی۔
کیل پہنچنے تک کا سارا سفر عجیب کرب وبلا کا سفر تھا کہ کب وادی کشمیر صحیح معنوں میں جنت بنے گی۔ کیل پہنچے تو دو جوانوں نے ہمارا استقبال کیا اور پورٹر نے ہم سب کا سامان اٹھایا اور ہم اپنی منزل ارنگ کیل کی طرف چل پڑے کچھ فاصلہ پیدل چلنے کے بعد دریا کنارے نصب چیئر لفٹ آ جاتی ہے۔ اس کی دوسری طرف ارنگ کیل ہے وہاں موجود دفتر سے ٹکٹ لیں اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگے تھوڑی دیر بعد ہمارا نام پکارا گیا تو ہم چئیر لفٹ کے قریب پہنچے ایک وقت میں آٹھ لوگ بیٹھ سکتے ہیں چیئر لفٹ دریا سے کافی بلندی پہ ہے اور نیچے سر پٹختا دریا، ایک طرف سے دوسری طرف کا سفر بمشکل تین چار منٹ کا ہے، تین چار منٹ کا یہ سفر ایک ایسا دلفریب اور رومانٹک کہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ خوف اور خوشی کا ایک عجیب و غریب منظر۔
چئیر لفٹ سے اتر کر ہم پیدل اوپر کی طرف گامزن ہو گئے، اوپر جانے کے لیے گھوڑے بھی دستیاب ہوتے ہیں مگر پیدل سفر ہی تو اصل سفر ہوتا، ہم ٹریکنگ کے لیئے ہی تو اتنی دور آئے تھے، پہاڑی علاقوں کا سفر آپ کی صحت کا بہترین ٹیسٹ ہوتا ہے میں ہمیشہ پہاڑی علاقوں میں گھوڑوں اور جیپ کا ناقد رہا ہوں ایک وجہ تو یہ ہے کہ جب مشکل سفر آسان ہو جاتا ہے تو وہ لوگ بھی چلے جاتے ہیں جن کو نہیں جانا چاہیے اور سفر کا وہ مزہ بھی نہیں آتا ایسے تو کے ٹو کو آرام سے ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کے سر کیا جا سکتا ہے دوسری وجہ گھوڑوں نے ٹریک پہ وہ گند مچایا ہوتا ہے کہ آپ کو ناک پہ رومال رکھ کے چلنا پڑتا ہے بہرحال مقامی لوگوں کے روزگار کے بہانے فطرتی نظاروں کی تباہی کا بہترین اور آسان کام ایسے علاقوں میں جیپ اور گھوڑوں کی دستیابی ہے۔
چئیر لفٹ سے اتر کر تقریبا 40 منٹ کا یہ سفر خوش اسلوبی سے طے ہوا، اوپر پہنچے تو سورج اپنی کرنوں کو سمیٹنے کی کوشش کر رہا تھا پہاڑوں میں غروب آفتاب کا وقت انتہائی مسحور کن ہوتا ہے ہمارے ساتھ موجود جوان ہمیں وہاں موجود ہوٹل اور آبادی سے ذرا ہٹ کے ایک خوبصورت لکڑی کے بنے ہٹ میں لے گیا، سپاہی منظور نے بڑی گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا پچھلے دو دن کی تھکاوٹ سے سب کا برا حال تھا لیکن ہم ڈوبتے سورج کی حسین شام سے لطف اندوز ہونا چاہتے تھے، سب نے جلدی جلدی نہایا اور اتنے میں گرم گرم قہوہ آ گیا ہم نے قہوہ پیا اور نیچے وادی میں اتر گئے۔
وادی موجود گھروں کی چمنیوں سے دھواں اٹھ رہا تھا، چرواہے اپنی بھیڑ بکریوں کو پہاڑوں سے نیچے اتار رہے تھے، گھوڑوں کے غول سورج کی کرنوں سے الودائی اٹھکیلیاں کر رہے تھے فضا میں ایسی خوشبو بسی تھی کہ کیا کہنے، فضا اتنی صاف کہ سانس لیتے تھے تو ایسا لگتا تھا جیسے زندگی میں پہلی بار سانس لے رہے ہیں اس خوبصورت شام سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہم واپس اپنے ہٹ میں پہنچے فوجی جوانوں نے بریانی اور چکن کڑائی سے ہماری خوب تواضع کی۔ میزبانوں نے کرسیاں باہر رکھ دیں اور ہم آسمان پر پھیلے تاروں میں مگن ہو گئے پہاڑی علاقوں کی راتیں بڑی اداس ہوتی ہیں۔
آسمان اتنا شفاف کے ستارے جیسے زمین پہ اتر رہے ہیں اس جنت نظیر وادی ارنگ کیل کے اپنے دکھ بھی ہیں جو کم ہونے کے بجائے بڑھتے جا رہے ہیں وادی کے مکین کمرشلائز ہوتے جا رہے ہیں اور درختوں کو کاٹ کاٹ کر لکڑی کے ہوٹل بنا رہے ہیں اگر یہی سپیڈ رہی تو لگتا ہے کہ آنے والے 10 سالوں میں یہ خوبصورت وادی ویران ہو جائے گی۔
ایسا لگتا ہے کہ یاجوج ماجوج کا ظہور ہمارے ملک میں ہو چکا ہے جن کی دسترس سے نہ میدانی علاقے محفوظ ہیں اور نہ شمالی علاقہ جات کی خوبصورت وادیاں جہاں جس کا دل کرتا ہے چار لکیریں لگا کر قبضہ کر لیتا ہے اس کی ذمہ داری سیاستدانوں، حکمرانوں اور اشرافیہ پر ہے سیاست دان ویژن دیتا ہے بیوروکریسی اس ویژن پہ عمل کرواتی ہے اور طاقتور ادارے اس ویژن کے محافظ ہوتے ہیں بد قسمتی سے یہ تینوں گروہ زنگ آلود ہو چکے ہیں، اللہ کریم سے دعا ہے کہ سر زمین پاک کو شریروں کے شر سے محفوظ رکھیں۔
دوسرے دن بوجل دل کے ساتھ ارنگ کیل کو الوداع کیا اور واپس گوجرانوالا آ گئے۔