16 November Darguzar Aur Bardast Ka Aalmi Din
16 نومبر درگزر اور برداشت کا عالمی دن
ہر سال 16 نومبر کو درگزر اور برداشت کا عالمی دین منایا جاتا ہے اس دن کو منانے کا مقصد عوام کو آگاہی دینا مقصود ہوتا ہے تاکہ عوام کو شعور دیا جا سکے کہ درگزر کرنا، معاف کرنا کتنا اہم اور ضروری ہے تاکہ یہ دنیا امن کا گہوارہ بن سکے۔
درگزر اور معاف کرنے کی جتنی ضرورت اور اہمیت آج کے دور میں ہے شاید اتنی کبھی نہ تھی اگر ہم پاکستانی معاشرے پہ نظر دوڑائیں تو ہر طرف تنگ نظری، عدم برداشت، کینہ، حسد و بغض، نفرت اور معاشرتی تفریق ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پہ قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے عام اور روزمرہ کی باتوں پہ طلاقیں ہو جاتی ہیں، بھائی بھائی سے الجھ رہا ہے ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے پورا معاشرہ عدم برداشت، ضد اور جھوٹی اناوں میں جکڑا ہوا ہے، آپ روزانہ اخبار پڑھ کے دیکھ لیں آپ کو سارے اخبار میں سوائے لڑائی جھگڑے، معمولی تلح کلامی پہ قتل و غارت اور الزام تراشی کے علاوہ کچھ نہی ملے گا۔
اس معاشرے میں رہنے والے لوگ کبھی بھی ایک جیسے نہیں ہو سکتے لباس مختلف، عقائد مختلف، علاقے رہن سہن کے طریقے محتلف، سوچنے، بولنے کے انداز مختلف، یہ ہر معاشرے میں ہوتا ہے یہ عین فطری ہے، اپنی اپنی زبانیں ہیں یہ سارے عوامل اختلاف کی وجہ نہیں ہونے چاہیے، معاشرے انہی تضادات کا مجموعہ ہوتے ہیں اور ان تمام تضادات کے ساتھ ہی آگے بڑھتے ہیں، درگزر اور برداشت میں ہی ہم انسانوں کی بقا ہے۔
ہمارے معاشرے میں عدم برداشت اور جزباتی پن کے بنیادی عوامل سیاستدان اور نام نہاد علماء ہیں۔
سیاست دانوں نے اس معاشرے کو اپنے ووٹ کے لیے قبیلوں، برادریوں اور گروہوں میں تقسیم کیا ہے اور اپنے مفادات کے لیے لوگوں کو ایندھن بنایا ہے، آج اس سیاست کی وجہ سے بھائی بھائی سے ناراض ہے ایک ہی گھر میں رہنے والے گروہوں میں تقسیم ہیں، لوگ ایک دوسرے کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں، شخصیت پرستی حق پرستی پہ غالب آ چکی ہے۔
سیاستدانوں کی طرح متشدد نظریات رکھنے والے مذہبی لوگ اور علماء بھی عدم برداشت کے ذمہ دار ہیں انہوں نے عوام میں نفرت کے بیج بوئے ہیں، مسالک کی جنگ انہی نام نہاد علماء کا کارنامہ ہے، پاکستان میں مذہب کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اب تک کیا جا رہا ہے، کبھی جہاد کے نام پہ دہشت گردی کو فروغ دیا جاتا ہے اور کبھی مختلف نظریہ اور مسلک رکھنے والوں کو تہہ و تیغ کیا جاتا ہے، مذہب کے نام پہ لوگوں کے جزبات کو بھڑکایا جاتا ہے، آئے روز سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں، یہ کون سا اسلام ہے جس کی تبلیغ ہو رہی ہے، روکنے والوں پہ کفر و شرک کے فتوے لگتے ہیں۔
اسلام محبت و رواداری اور سلامتی کا دین ہے اور اپنے ماننے والوں کو پابند کرتا ہے کہ معاملات چاہے دینی ہوں دنیاوی ہوں یا معاشی ہمیشہ درگزر صبر اور اعتدال سے کام لینا چاہیے اختلاف علمی ہونا چاہیے اور اتنا آگے نہیں بڑھنا چاہیے کہ معاشرہ عدم برداشت کا شکار ہو جائے اور لوگ قتل و غارت پہ اتر آئیں۔
ہمارے نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی ہی درگزر اور صبر و سلامتی کا مجموعہ ہے اور پوری انسانیت کے لیے نمونہ اور راہ نجات ہے، نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی درگزر اور برداشت کی مثالوں سے لبریز ہے، دشمن سے انتقام لینا اور خاص کر دشمن بھی ایسا جس نے بھر پور دشمنی کی ہو، لہوکا پیاسا ساری زندگی دکھ دینے والا، ہر دم گھات میں رہنے والا اس کے لگائے ہوئے زخم مسلسل رس رہے ہوں، ساری زندگی چین سے نہ بیٹھنے دیا ہو، ایسے آدمی سے انتقام لینا فطری تقاضا ہے، ایسے دشمن کو اس وقت معاف کرنا اور درگزر کرنا بدلہ نہ لینا جبکہ بدلہ لینے کی پوری طاقت بھی ہو اور حالات بھی مدد گار ہوں۔ ایسی صورت میں ایسے دشمن کو معاف کرنا کتنی بڑی عظمت کی بات ہے۔
سید الشہداء حضرت حمزہؓ کا جو تعلق آقا نامدار ﷺ کے ساتھ تھا وہ کسی مسلمان سے ڈھکا چھپا نہیں، وہ آپ ﷺ پر جان نچھاور کرتے تھے غزوہ احد میں وحشی بن حرب نے گھات لگا کر آپ کو شہید کیا۔ فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ نے اس کا خون مباح قراردے دیا تھا اس لیے یہ شخص بھاگ کر پہلے طائف چلا گیا اور پھر وہاں سے مدینہ منورہ آیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا اور آپ سے اپنے قصور کی معانی چاہی رحمت للعالمین ﷺ نے اسے دامن رحمت میں جگہ دی اور معاف کردیا۔ انسانی تاریخ میں آپ نے محسنوں کے قاتلوں کو صرف اللہ کی رضا کے لیے معاف کر دینا یہ نبی رحمت ﷺ ہی کا خاصہ ہو سکتا ہے ورنہ ایسی حالت میں عربوں کے ہاں صدیوں قتل و غارت کا بازار گرم رہتا تھا۔
طائف کا واقعہ درگزر معافی اور صبر کی معراج ہے اور ہم سب انسانوں کے لیے مشعل راہ ہے، نبی کریم ﷺ نے پوری زندگی جبر ظلم اور سختیوں کا مقابلہ درگزر، صبر اور خیر خواہی سے کیا، کفار مکہ نے ظلم کے پہاڑ توڑے لیکن کبھی کسی کو برا بھلا نہیں کہا، کیا کیا القابات تھے جو آپ کو نہیں دیے گئے تھے مگر نبی کریم ﷺ نے ہمیشہ صبر و استقامت سے کام لیا کسی کو گالی نہیں دی، پگڑی نہیں اچھالی، مخالفین پہ الزام تراشی نہی کی بلکہ سب کو رواداری کا درس دیا۔
ہماری بربادی کی بنیادی وجہ ہی دین اور سنت سے دوری ہے ہم نام نہاد مسلمان ہیں عبادات بھی کرتے ہیں اور ہر طرح کے ظلم و جبر بھی جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ ظالم کے ساتھی بنے ہوئے ہیں۔
آئیں عہد کریں کہ ہم سب درگزر، باہمی محبت اور رواداری اور سلامتی کے پیغام کو پورے معاشرے میں پھیلائیں گے، جنہوں نے اس معاشرے کو عدم برداشت اور نفرت کا شکار کیا ہے وہی اس معاشرے کو امن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں، آج سے ہی سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں اعلان کریں کہ وہ درگزر، ہمدردی اور صبر کو فروغ دیں گی اور مخالفین کی پگڑیاں نہیں اچھالیں گی، لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لائیں گی، صلح اور برداشت کے کلچر کو فروغ دیں گی۔
ایسے ہی علماء، اساتذہ اکرم اپنے ممبر اور درس و تدریس میں باہمی محبت، فلاح و خیر خواہی اور معاشرتی رواداری کو اولیت دیں، طلبہ اور عوام کو درگزر اور برداشت کرنے کی تعلیم دیں، یہ ملک ہمارا ہے اور ہمارے آباو اجداد نے بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے اسے عدم برداشت سے پاک کرنے کے لیئے ہم سب کو ہی کردار ادا کرنا چاہیے۔ سیاستدان، علماء اور استاد اس معاشرے کے امن و سلامتی کے ضامن ہیں، یہ چاہیں تو آج بھی یہ معاشرہ امن و سکون اور محبت کا گہوارہ بن سکتا ہے۔