Molana Muhammad Hussain Azad (1)
مولانا محمد حسین آزاد (1)
مولانا محمد حسین آزاد شاہ جہان آباد میں پیدا ہوئےدہلی کالج میں تعلیم پائی، شعرو ادب میں اُستاد ابراہیم ذوق کی شاگردی فرمائی۔ اُستاد مرحوم محمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر کے ہم درس و دوست قریبی اور رازدان و ہم زباں تھے۔ واقعہ اِس دوستی کے لحاظ کا یہ ہے کہ کابلی دروازے کے پا س حافظ غلام رسول شوق کی مسجد ہوتی تھی۔ یہاں میاں عبد الرزاق کا درس چلتا تھا۔ میاں صاحب دہلی کے مشہور فاضل، زبان دان اور عالم تھے۔ ذوق متواتر اُن کے درس میں حاضر ہوتے تھے۔ یہیں مولوی محمد باقر کبھی کبھی چلے آتے تھے۔
اِس سبب سے ابراہیم ذوق اور مولوی محمد باقر سے دوستی چل نکلی اور خوب جُڑ گئی۔ دونوں ایک دوسرے کے بھروسا مند اور خیرخواہ تھے۔ جس وقت مولوی محمد باقر دہلی اردو اخبار کے مالک بنے تھے، اِسی اخبار میں مولوی صاحب اُستاد کی غزلیں اور بہادر شاہ ظفر کی غزلیں چھاپا کرتے تھے۔ خاص کر جلوسِ شاہی کے وقت یہ اخبار بادشاہ کی مدح و توصیف میں وقف ہوتا تھا۔ اُستاد ابراہیم ذوق جب بہادر شاہ کے اُستاد ہوئے تو یہ دوستی مزید اِس طرح گہری ہو گئی کہ بادشاہ سلامت دونوں کو اکثر قلعہ میں مہمان بلایا کرتے تھے۔ اور یہ پالکیوں پہ بیٹھے اُس عزت و توقیر کے سہرے باندھے دربار میں حاضر ہوتے جس کی حسرت ہمارے مرزا نوشہ کو بہت تھی مگر ابھی قسمت نے اُنھیں اِس فخر کے قلاوے سے بہت دُور رکھا ہوا تھا۔
وہ صاحبِ کمال آگرہ سے تھے اور دہلی والے کب اتنی آسانی سے اُسے فصیلِ قلعہ کے بُرجوں پر سر بلند ہونے دیتے تھے۔ اِدھر مرزا نوشہ بھی ماورالنہری افراسیابی تھے۔ کہاں نچلے بیٹھ سکتے تھے۔ چنانچہ اُستاد ذوق اور اِن سے خاموش طبلِ بجا، سرد حملوں کا آغاز ہوا جس میں مولوی محمد باقر نے اپنی اخبار کے پرچے اور قلم کا زور ابراہیم ذوق کی معاونت میں بڑھائے، بات یہاں تک پہنچی، کہ جب مرزا صاحب پر قماربازی کا مقدمہ ہوا تو دہلی اردو اخبار نے یوں مرزا صاحب کے قلب پر حملہ کیا۔
مولوی محمد باقر صاحب جس مکان میں ٹھیکی رکھتے تھے وہ دہلی کے کشمیری محلے کے مرکزی بازار میں تھا اور وسیع رقبے پر تعمیر ہوا تھا۔ یہ کشمیری محلہ اِس لیے کہلاتا تھا کہ یہاں اکثر آباد ہونے والے خاندان کشمیری روئسا اور اشراف میں سے تھے۔ چونکہ مولوی محمد باقر کے والد اخوند محمد اکبر پہلے ایران سے کشمیر میں داخل ہوئے تھے، وہاں کچھ عرصہ رہنے کے بعد نادر شاہ کے حملے کے وقت دہلی میں وارد ہوئے اور اِسی محلے میں آن بسے اور یہاں اپنا ایک مدرسہ قائم کیا۔ جہاں تشیع مکتبہ فکر اور مذہبیات کی تعلیم دی جاتی تھی۔
اخوند محمد اکبر کی شرافت اور پاکبازی کے سببب اُن کا نام جلد دہلی کے اشراف میں معروف ہوا۔ مولوی محمد باقر بھی یہیں پیدا ہوئے۔ اُن کی ابتدائی تعلیم خود اخوند محمد اکبر نے کی، بعد ازاں دہلی کالج میں داخل کیا۔ یہاں کے منظروں نے مولوی صاحب کی نظر کو وسیع کیا۔ وہ اجداد کی روشِ کہنہ کے برعکس مذہب کے ساتھ گونا گوں معاملات میں دلچسپی لینے لگے۔ دہلی کالج کی زندگی نے اُن میں کاروبارِ دنیا سے منسلک ہونے کی ہوا دی۔
اگرچہ باپ کے مدرسے کو جان سے لگائے رکھا اور مجتہد کا درجہ بھی اپنی لیاقت سے پا لیا اور اُسے رندگی بھر نبھائے رکھا مگر ساتھ معاشی طور پر ایسے ذرائع پیدا کیے کہ وسیع فارغ البالی کا پروانہ ہاتھ میں لے لیا۔ مولوی محمد باقر مجتہد ہونے کے ساتھ ایک بڑے کاروباری آدمی تھے۔ اُنھوں نے بہت سرائیں اور کاروباری منڈیاں بھی قائم کر رکھی تھیں۔ کشمیری محلہ، جو اب کشمیری بازار کہلاتا ہے، وہیں مولوی محمد باقر کا وہ امام باڑہ اور کٹڑہ تھا، جہاں پرنسپل دہلی کالج کو مولوی صاحب نے پناہ دے رکھی تھی۔
مولوی محمد حسین آزاد بھی اپنے جد کے اُسی مکان میں پیدا ہوئے جہاں مولوی محمد باقر پیدا ہوئے تھے اور والد ہی کی طرح ابتدائی تعلیم اپنے جد اخوند محمد باقر سے پائی۔ مولوی محمد باقر کی شادی برخلاف ِ روایت دہلی میں ایک ایرانی ںژاد معزز شیعہ گھرانے میں ہوئی تھی۔اس سلسلے میں آغا محمد باقر نبیرہ آزاد لکھتے ہیں۔۔
مولانا محمد شکوہ کی زوجہ محترمہ بھی ایران سے اُن کے ساتھ آئی تھیں۔ مولانا نے اپنے فرزند محمد اشراف کو علوم ِ دینی کی خود تعلیم دی اور اُن کے انتقال کے بعد اُن کے جانشین ہوئے اور مجتہد کہلائے۔ مولانا محمد اشرف کی شادی بھی ایران میں ہوئی۔ اسی طرح یہ بھی اپنے صاحبزادے محمد اکبر کی شادی ایران سے کر کے لائے۔ مولانا محمد اکبر بھی اپنے والد کے مجتہد اور عالمِ دین ہوئے۔ یہ بات ابھی تک مشہور ہے کہ محمد اکبر صیح اردو نہ بول سکتے تھے۔ آبِ حیات میں لکھا ہے کہ، آزاد ہندی نہاد کے بزرگ فارسی کو اپنی تیغ ِ زبان کا جوہر جانتے تھے۔
مگر تخمیناً سو برس سے کل خاندان کی زبان اردو ہو گئی ہے۔ آبِ حیات پہلی مرتبہ 1880 میں چھپی تھی۔ اِس بیان کے مطابق اِس خاندان کی تیسری پُشت کی زبان اردو ہو گئی۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ کُل خان دان کی زبان اُس وقت اردو ہو گئی ہو لیکن مولانا محمد اکبر پر فارسی زبان کے اثرات باقی ہوں ایسا ہونا قرینِ قیاس بھی ہے کہ اُس وقت تک سلسلہ ازدواج ایران سے رہتا تھا۔ مولانا محمد اکبر نے اِس رسم کو پہلی مرتبہ توڑا اور اپنے صاحبزادے محمد باقر کی شادی دہلی کے ایک ایرانی نژاد خاندان کی دختر بلند اختر سے کی جس سے محمد حسین پیدا ہوئے، اِس روایت کے ٹوٹنے سے آزاد کا رشتہ دو زبانوں سے بندھ گیا۔
والدہ محترمہ کی طرف سے ٹھیٹ اردو کے ساتھ اور دادا جان کی طرف سے فارسی کے ساتھ۔ یوں دونوں زبانوں کی تعلیم محمد حسین آزاد کو لا شعوری طور پر ملتی رہی۔ اِس طریق میں ایک طرح سے آزاد میاں کی اردو اور فارسی پہلی زبانیں تھیں۔ فارسی جو کہ اُس وقت تمام اشرافِ دہلی کی زبان ہونا ضروری سجھا جاتا تھا محمد حسین آزاد کے لیے دادا جان کی تربیت اور تعلیم کا ثمر ہو گئی اور اردو ماں کے دودھ کا آبِ حیات۔
محمد حسین ابھی بچے تھے اور کہ اُن کی والدہ داغ دے گئیں۔ چھوٹی عمر میں ماں کی قربت کا جنازہ دیکھنا پڑا، یہ زمانہ مولوی موحمد باقر اور احمد حسین آزاد کے لیے برابر آزمائش کا تھا۔ مولوی باقر کا کاروبار روز بہ روز پھیلتا جاتا تھا۔ فرصت ایسی نہ تھی کہ بیٹے کی طرف آٹھ پہر توجہ کا کرم اور شفقت کا ثمر بڑھایا جاتا۔ اِن خلا کے لمحوں کوآزاد کے دادا محمد اکبر نے اپنے جلوت و صحبت سے معمور کی۔ پوتے کے لیے ماں کی شیرینی اور باپ کی رفاقت کا امتزاج بنے۔ یہیں زمانہ تھا کہ فارسی ادب کی متداول کتابیں اور علمی ورثہ اُن کے سینے میں راہ پانے لگا۔