Wednesday, 15 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ahsan Iftikhar/
  4. Inqilab

Inqilab

انقلاب

انقلاب یہ لفظ صدیوں سے انسان کے ذہن اور دل میں مقیم ہے انسان چاہتا ہے کہ وہ انقلاب لا کر یا انقلابی تحریکوں میں حصہ لے کر اپنی آنے والی نسلوں اور اپنے لیے کچھ اچھا کر سکے۔ اپنے ماضی کے دکھ اور مستقبل کیلئے پریشان لوگ ان تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں جب بھی حالات ایسے ہوتے ہیں کہ انسان کے پاس ضروریات پوری کرنے کے بھی پیسے نہیں ہوتے تب وہ کسی ایک طرف جاتا ہے اس طرف جس طرف اسے لگتا ہے کہ ہاں یہ ہماری ضروریات کو پورا کر سکتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ انسان اپنی ضروریات کیلئے ہی اپنے کام چھوڑ کر نظام سے لڑنے کیلئے باہر نکلتا ہے بس فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ کوئی انسان ان ضروریات پر"انقلاب" کا لیبل لگا دیتا ہے کہ اب انقلاب آئے گا اور جو امیر لوگ آپکی ضروریات پوری نہیں کر سکتے ان کو ہم ذلت کا نشاں بنا دیں گے اور یہی عام عوام یہی لوگ ہونگے جو کل کو اس قوم کا بہتر مستقبل بنیں گے۔

پاکستان میں بھی کچھ اس طرح کے ہی حالات ہیں۔ بچوں سے لے کر بڑوں تک سب کیلئے انقلاب دیکھنا اہم ہوچکا ہے یا یوں کہا جائے کہ یہ انقلاب ان لوگوں کیلئے خواب کی حیثیت رکھ چکا ہے۔

موجودہ حالات کو دیکھا جائے تو لوگ اتنے غصے میں آچکے ہیں کہ لگتا ہے اب انقلاب لا کر ہی چھوڑیں گے مگر پھر ناکام کوششیں۔ پاکستان کی ساری تاریخ ایسے حالات سے بھری پڑی ہے کہ لگتا تھا اب سب بہتر ہوجائے گا یا کم ازکم ایمرجنسی سٹیٹ کا لیبل پاکستان کے نام ساتھ سےختم ہوجائےگا مگر یہ بھی فقط وہم تھا۔

انہی دنوں میں جب غصے سے بھرے لوگ سڑکوں پر گرمی کی شدت کے باوجود نظر آتے تھے میں بھی اپنے کسی کام سے باہر گیا سڑکوں کے حالات دیکھ کر گمان ہوتا تھا گویا یہ کسی اور ملک کی سر زمین ہے جہاں ابھی ابھی جنگ شروع ہوئی ہے۔ آج پھر بھی کچھ حالات بہتر تھے عوام سڑکوں پر تھی مگر کم۔ ایک جگہ کچھ حجوم لگا ہوا تھا عوام کافی جمع تھی ایسے لگ رہا تھا کہ شاید کوئی عوامی لیڈر ہے جو عوام سے خطاب کر رہا ہے کہ عوام کندھوں کے ساتھ کندھے ملائے ایسے کھڑی تھی کہ جیسے اب یہ ساری عمر متحد رہیں گے۔

میں نے بھی آگے بڑھنے کی ہمت کی۔ دل میں اک ڈر تھا کہ حالات ایسے ہیں کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ سوچنے والوں کی قدر تو پہلے ہی بہت کم ہے لیکن ہمت ڈر پر حاوی ہوگئی اور میں آگے بڑھنے لگا۔ لوگ جو کندھوں کے ساتھ کندھے ملا کر کھڑے تھے ان کے کندھوں کے درمیان ایک پتلی سی سڑک نما جگہ نکال کر آگے بڑھا یا یوں کہنا بہتر ہے ہجوم میں گھسنے کی کوشش کرنے لگا آخر ہجوم میں موجود اگلے لوگوں کے ساتھ مل گیا۔

سامنے ایک پنتالیس پچاس سال کے مرد تھے جو عوامی لیڈر ہی لگ رہے تھے۔ عوام کی نظریں ان پر براجمان تھیں۔ میں نے بھی اپنی نظریں ان پر بٹھا دیں۔ وہ شخص آگے بڑھے اور میری نظریں ان کی سمت بڑھیں۔ انہوں نے اپنے بازو کو مخصوص انداز میں پیچھے کیا اور پھر آگے کرتے ہوئے کہا: "لاہور دا پاوا اختر لاوا"۔

Check Also

Washington DC Ka Jaiza

By Mojahid Mirza