کالا طوفان ، ٹڈی بریانی اورافغان فورسزکی زیادتیاں
امریکا خوابوں کی سرزمین سمجھا جاتا ہے۔ ہم اور ہماری اولادوں میں سے لاتعداد ایسے ہیں جو اُڑ کر امریکا پہنچنا چاہتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ امریکا پہنچنے کے لیے ہر قسم کے جائز اور ناجائز طریقے بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ ایک امریکی سیاستدان نے کچھ عرصہ قبل ہماری اِسی خواہش کے حوالے سے ہم پاکستانیوں بارے جو دل آزار بیان دیا تھا، اس کی تلخ بازگشت ابھی تک فضاؤں میں ہے۔
اس کے باوجود ہم میں سے کئی امریکا جانا چاہتے ہیں۔ چونکہ کورونا وبا نے امریکا میں بھی ہلاکتوں کا بازار گرم کررکھا ہے، اس لیے شائد امریکا جانے میں کچھ خطرات محسوس کیے جا رہے ہیں۔ امریکا میں غیر امریکیوں اور غیر گوروں سے، ہر سطح پر، جو سلوک کیا جاتا ہے، اس کا تکلیف دِہ مشاہدہ اور تجربہ بس وہی لوگ کر سکتے ہیں جو وہاں بستے ہیں۔
امریکا میں جا بسنے والے ہم ایشیائی مہاجرین کو تو رکھیے ایک طرف، وہ امریکی سیاہ فام (Black Americans) جو پچھلی پانچ صدیوں سے امریکا میں آباد ہیں، ابھی تک سفید فام اورRed Neckedامریکیوں کی ظالمانہ نسل پرستی اور نفرت سے نجات نہیں پا سکے ہیں۔ بظاہر تو امریکی آئین نے کالے امریکیوں کو یکساں حقوق عطا کررکھے ہیں اور کالوں سے امتیاز برتنا ایک جرم ہے لیکن عملی سطح پر اب بھی دن کی چکا چاند میں کالوں کے ہر قسم کے حقوق پامال کیے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے سفید فام امریکی نسل پرستوں کے ہاتھوں سے یہ پامالی ہوتی ہے۔ قانون نافذ کرنے والوں کے ہاتھوں کالوں کا سرِ بازار تشدد، قتل اور توہین کے واقعات عام ہیں۔
ان زیادتیوں کے خلاف ہالی وُڈ نے متعدد فلمیں بھی بنائی ہیں جنھیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ خود کو مہذب کہلوانے والے سفید امریکیوں نے ماضی قریب میں کالے امریکیوں پر کیسے کیسے ظلم کے پہاڑ توڑے تھے۔ ان مظالم کی شکل بدل گئی ہے لیکن ان میں اب بھی کمی نہیں آئی ہے۔ کچھ سال قبل سیاہ فام امریکیوں نے سفید فام امریکی نسل پرستوں کی زیادتیوں اور ظلم کے خلاف واشنگٹن میں "ملین مارچ" بھی نکالا تھا۔ مجھے اس عظیم الشان اجتماع کا خود مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ اس کے باوجود کالے امریکی، سفید فام نسل پرست امریکیوں کی پُر تشدد کارروائیوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ میلکم ایکس (Malcolm X)کے بہیمانہ قتل کے بعد سیاہ فام امریکیوں کو کوئی طاقتور اور متفقہ لیڈر نہیں ملا ہے۔
اسی وجہ سے کالے امریکی آج بھی مظلومیت کی چکی میں پِس رہے ہیں۔ کالے امریکیوں پر ظلم و تشدد کا تازہ واقعہ امریکی ریاست منی سوٹا میں پیش آیا ہے جہاں ایک سفید فام پولیس والے نے صریح زیادتی کرتے ہُوئے ایک 46سالہ کالے امریکی(George Floyd) کو دن دیہاڑے مار ڈالا۔ اس ظلم کے خلاف امریکا کے بڑے بڑے شہروں میں سیاہ فاموں کا طوفان بے قابو ہے۔ چالیس امریکی ریاستوں میں کرفیو نافذ اور واشنگٹن میں فوج تعینات ہے۔ امریکا کے سب سے بڑے اخبار، یو ایس ٹوڈے، نے تحقیقی جریدے The Lancetکے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ امریکا میں ہر سال امریکی پولیس کے ہاتھوں 300کالے امریکیوں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔
امریکا میں اگر مظلوموں کا کالا طوفان اُمڈ رہا ہے تو بھارت ٹڈی دَل کی یلغار سے بے حال ہورہا ہے۔ کورونا وائرس کی آندھی نے بھارت کو ویسے ہی بے حال کررکھا ہے، اوپر سے ٹڈی دَل کے طوفان نے اُس کی چیخیں نکال دی ہیں۔ ٹڈی دَل کی یلغار اور تباہ کاریوں سے پاکستان بھی برابر پریشان ہے۔
ہمارے کھیت، فصلیں اور کسان اُجڑ گئے ہیں۔ ایک ہزار ارب روپے کے زرعی نقصان کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ حکومت ِ پاکستان اس نئی آفت سے بچاؤ کے لیے کسانوں اور زمینداروں کے لیے آگاہی اشتہار بھی چلا رہی ہے اور عمران خان کی طرف سے ٹڈی دَل کے حملوں کی وجہ سے برباد شدہ کسانوں کی مقدور بھر مالی اعانتیں بھی کی جا رہی ہیں۔
پاکستان نے مگر نہ تو واویلا مچایا ہے اور نہ ہی بھارت پر الزامات عائد کیے ہیں کہ ٹڈیوں (Locusts) کا یہ لشکر بھارت نے پاکستان کی طرف بھیجا ہے۔ بھارت سرکار اور بھارتی میڈیا کا رویہ مگر بڑا حیرت انگیز ہے۔ بھارت نے جہاں پاکستان پر حالیہ ایام میں "لانچنگ پیڈز" اور جاسوس کبوتروں کے بے بنیاد اور بھونڈے الزامات لگائے ہیں، وہیں یہ نیا الزام بھی تھوپ دیا ہے کہ "دہشت گرد" ٹڈی دَل پاکستان ہی نے بھارت کی طرف بھیجا ہے۔
اس ٹڈی دَل نے بھارت کے گیارہ صوبوں میں تباہی کی نئی مثالیں قائم کر ڈالی ہیں۔ ارنب گوسوامی و سدھیر چوہدری ایسے بھارتی اینکرز بے لگام ہو کر پاکستان پر الزام عائد کررہے ہیں کہ "پاکستان کو تو ٹڈی بریانی (Locust Biryani) کھانے کا شوق تھا ہی، ہمیں بھی یہ لَت لگائی جا رہی ہے۔" ایسی بیہودگی، بدتمیزی کا بھلا کیا جواب دیا جائے؟ ہذیان اور ہیجان میں بھارتی میڈیا نجانے پاکستان کے خلاف کیا کیا بک رہا ہے۔ نئی دہلی میں پاکستان ہائی کمیشن میں تعینات دو پاکستانی سفارتکاروں پر بھارت کا نیا اور بھونڈا الزام بھی اسی کا حصہ ہے۔
اِس پیش منظر میں افغان فورسز کی پاکستان کے خلاف نئی دہشت گردانہ کارروائی کو بھی پرکھنے اور اس کا تجزیہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ویسے تو پچھلے کئی برسوں سے نئی دہلی اور کابل کا پاکستان کے خلاف گٹھ جوڑ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن افغان فورسز کی پاکستان کے خلاف تازہ فائرنگ ایک سنگین اور ناقابلِ برداشت سانحہ ہے۔
اس فائرنگ سے پاکستان کے تین شہری، جو پاک افغان سرحد سے متصل رہائش پذیر تھے، شہیدہو گئے ہیں۔ پاکستان نے جواب تو دیا ہے لیکن ذرا ضبط اور تحمل کے ساتھ۔ افسوس تو یہ بھی ہے کہ شمالی وزیرستان میں بروئے کار ایک" تنظیم" نے ہمارے ان شہدا کے حوالے سے افغانستان کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کیا ہے۔ یہ خاموشی خاصی معنی خیز ہے۔ بھارتی شہ پر پاکستان کے خلاف افغان فورسز کی یہ قابلِ مذمت کارروائی نئی بات نہیں ہے لیکن اب ان اقدامات کو سخت اور آہنی ہاتھوں سے نمٹنا پڑے گا۔
افغانستان بارے یو این او کی ایک تازہ رپورٹ کو بھارت اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہُوئے جس طرح پاکستان کا نام لینے کی ناکام کوشش کر رہا ہے، یہ بھی بھارتی ذہنی خلفشار کی ایک عجب داستان ہے۔ پاکستان اور افواجِ پاکستان نے تو ہر معاملے میں افغانستان کی امداد اور دستگیری کی ہے۔ ابھی حال ہی میں گوادر بندرگاہ پر ایک جہاز لنگر انداز ہُوا ہے۔ اس کا سارا سامان، جس میں کھاد زیادہ تھی، پاکستان کے راستے افغانستان پہنچایا گیا ہے۔ مختلف سامان سے لدے پھندے افغانستان کے چند تجارتی ٹرکوں کو بھی حال ہی میں پاکستان نے بخوشی بھارت پہنچنے کی اجازت اور سہولت بخشی ہے۔
افغانستان میں امن سازی کی ہر عالمی کوشش میں پاکستان کا حصہ سب سے زیادہ اور نمایاں ترین ہے۔ افغان طالبان کو امن کے لیے مذاکرات کی میز پر لانے میں پاکستان سے زیادہ کس کا حصہ ہے؟ افسوس ہمیں مگر یہ ہے کہ افغانستان کے لیے پاکستان کی لاتعداد محبتوں کا جواب اسی تناسب سے پاکستان کو نہیں مل رہا۔ پاکستان کو مطلوب کئی مجرم، جنھوں نے افغانستان میں برسوں سے پناہ لے رکھی ہے، بھی پاکستان کے حوالے نہیں کیے جارہے۔ ایک نیا نام بھی اس فہرست میں شامل ہُوا ہے جسے پاکستان کے حوالے نہیں کیا جارہا ہے۔ اس سے پہلے پاکستان میں دہشت گردی کی اَن گنت خونی وارداتیں کرنے اور کروانے والے مفرور، ملا فضل اللہ عرف ملا ریڈیو، کو بھی دانستہ افغانستان نے پاکستان کے حوالے نہیں کیا تھا۔ حتیٰ کہ امریکی ڈرون نے اُس کا صفایا کر دیا۔