گراؤنڈ زیرو مسجد سے وابستہ یادیں
تقریباً دو عشرے قبل آج ہی کی تاریخ (11ستمبر 2001ء) کو جب نیویارک پر دہشت گردوں نے حملہ کیا، راقم الحروف نیویارک ہی میں تھا۔ نیویارک کی عالمی شان اور جان پہچان "ورلڈ ٹریڈ ٹاورز" کو انوکھے دہشت گردوں نے دو ہوائی جہازوں سے ہدف بنایا اور زمین بوس کر دیا تھا۔
یہ دونوں ٹاورز نیویارک کے قلب "مین ہیٹن" میں واقع تھے۔ نیویارک اسکائی لائن کے یہ پُر غرور نشان دہشت گردی کے خوفناک حملے میں جل کر خاکستر ہو گئے تھے۔ تقریباً تین ہزار انسان Twin Towersمیں مارے گئے تھے۔ ان میں مسلمان بھی تھے، عیسائی بھی اور یہودی بھی۔ اس تباہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا میری زندگی کا ناقابلِ فراموش واقعہ ہے۔
اس دہشت گردانہ حملے، جس کی بازگشت ساری دُنیا میں سنائی دی گئی تھی، کے بعد نیویارک کی سب ٹرینیں، بسیں اور کاریں منجمد ہو گئی تھیں۔ ستمبر کی وہ صبح مَیں نے بھی دیگر ہزاروں بے بس اور خوفزدہ انسانوں کے ساتھ مین ہیٹن سے بروکلین آتے ہُوئے دریائے ہڈسن پر واقع تاریخی Brooklyn Bridgeپیدل ہی عبور کیا تھا۔ گھر پہنچا تو پاؤں مجروح تھے اور من من وزنی۔ دو عشرے گزرنے کے باوجود اُس جلتی اور دہکتی ہُوئی راکھ کی بُو ابھی تک میرے نتھنوں میں محفوظ ہے جس نے "ورلڈ ٹریڈ" کے شعلوں سے اُٹھ کر سارے نیویارک اور پھر ساری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ دہشت گردی کی اس واردات نے ایک نئی دنیا کو جنم دیا۔
امریکا نے نیویارک پر حملے کی ذمے داری کا الزام "القاعدہ" پر دھرا جس کے قائد اسامہ بن لادن بیان کیے جاتے تھے۔ حملہ آوروں کی تعداد20کہی گئی اور دعویٰ کیا گیا کہ ان میں سے13کا تعلق ایک مشہور عرب ملک سے ہے۔ امریکا کا غصہ افغانستان پر نکلا جہاں اسامہ بن لادن اور اُس کے ساتھی پناہ گیر تھے۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد امریکا میں مقیم مسلمان کمیونٹی پر جو افتاد پڑی، وہ اب تاریخ ہے۔ ایک عرب ملک کے ارب پتی تاجر اور شہزادے نے تالیفِ قلب کی خاطر ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں مرنے والوں کے لیے کئی ملین ڈالر کا چیک نیویارک کے میئر (رڈولف جولیانی) کو پیش کیا مگر میئر نے یہ کہتے ہُوئے چیک مسترد کر دیا:"ہم Blood Moneyنہیں لیتے۔" نیویارک میں جس جگہ یہ حملہ ہُوا تھا، بربادی کی اس باقیات کو اب" گراؤنڈ زیرو" کہا جاتا ہے۔
شعلے ابھی ماند نہیں پڑے تھے اور نہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی راکھ ابھی ٹھنڈی ہُوئی تھی کہ نیویارک کی مسلم کمیونٹی نے اعلان کر دیا کہ ہم گراؤنڈ زیرو پر مسجد بنائیں گے۔ امریکی اس پر بپھر گئے۔ امریکی مسلمانوں اور مسجد کے خلاف جلسے جلوس نکلنے لگے۔
مخالفت میں ایک ایسی معروف خاتون بھی چھاتی ٹھونک کر سامنے آ گئیں جو نائب امریکی صدر کا انتخاب لڑرہی تھیں۔ اخبارات و جرائد نے جلتی پر تیل چھڑکا لیکن نیویارک ریاست کی اصل انتظامیہ خاموش رہی۔ مسلمان مگر خاموشی سے فنڈز اکٹھا کرتے رہے اور جوابی بیانات سے گریز۔ امریکی سیاستدانوں نے مکالمے کی طاقت سے کام لیا۔ گراؤنڈ زیرو مسجد بارے مخالفانہ جذبات کو ٹھنڈا کیا۔ نیویارک کے مسیحیوں، یہودیوں اور مسلمانوں میں باہمی ڈائیلاگ کروایا اور آخر کار مکالمے کی فتح ہُوئی۔
گراؤنڈ زیرو مسجد بن گئی۔ اس شاندار اور پُر شکوہ مسجد میں مجھے بھی چند نمازیں ادا کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ گراؤنڈ زیر کی مسجد دراصل امریکی صبر، رواداری اور برداشت کی شاندار مثال ہے۔
ہم شاید اس مثال سے کبھی کوئی سبق نہیں سیکھ سکیں گے۔ اللہ کے فضل و کرم سے اِس وقت امریکا میں سیکڑوں نہیں، ہزاروں مساجد آباد ہیں جہاں اللہ کی کبریائی بیان کی جاتی ہے اور مسلمان بغیر کسی خوف کے، آزادی کے ساتھ، اپنے خالق و مالک کے حضور سربسجود ہوتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ممتاز امریکی مصنفہ، دانشور اور محقق، ڈاکٹر عزیزہ الحبری، لاہور تشریف لائیں تو امریکی قونصل خانے میں اُن سے میری تفصیلی ملاقات ہُوئی۔
وہ امریکا بھر کی مساجد کی تاریخ و تعمیر پر انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس خاتون نے بڑے فخر سے مجھے بتایا کہ امریکا بھر کی یہ مساجد اس امر کا ثبوت ہیں کہ مسیحی امریکا میں مسلمانوں پر مساجد بنانے کی پابندی ہے نہ مساجد میں جانے پر کوئی قدغن ہے۔ الحبری صاحبہ کے اجداد شام سے ہجرت کرکے امریکا آ بسے تھے۔ مسکراتے ہُوئے مجھے کہنے لگیں: "امریکا میں مسلمانوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی جتنی آزادیاں ہیں، شائد اُنکے اپنے آبائی مسلمان ممالک میں بھی نہیں۔"
ایک مسلمان ہونے کے ناتے ہم نیویارک کی "گراؤنڈ زیرو مسجد"(Ground Zero Mosque) پر بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔ یہ رواداری کی ایک خوبصورت اور دلکشا مثال ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر عزیزہ الحبری کی بات بجا ہے۔ مجھے نیویارک کے چاروں بڑے حصوں ( بروکلین، مین ہیٹن، برونکس، کوئنز)کے بیشتر علاقوں میں جانے اور وہاں کی کئی مساجد میں نمازیں اور جمعۃ المبارک ادا کرنے کے کئی مواقعے ملے ہیں۔ ان مساجد میں تراویح پڑھنے اور قرآن مجید سننے کے اعزازات بھی نصیب ہُوئے۔
رمضان کی تراویح کے دوران، جمعہ شریف کی نمازوں اور عیدین کے مواقعے پر نیویارک پولیس جس جانفشانی اور توجہ کے ساتھ مسلمانوں کا خیال رکھتی ہے، اس جذبے کی تحسین کیے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔ مسلمانوں کے خاص مذہبی مواقع پر مساجد کے سامنے، سڑک کے دونوں جانب، جس وسیع القلبی سے مفت پارکنگ کی سہولت دی جاتی ہے، میٹرو پولیٹن سٹی نیویارک کی انتظامیہ کی طرف سے یہ معمولی اقدام نہیں ہے۔
مجھے تو بروکلین کی میکڈانلڈ ایونیوپر واقع اُس مسجد میں بھی جمعہ کی کئی نمازیں ادا کرنے کے مواقع ملے جہاں مشہور عرب خطیب اور مبلغ، شیخ عمر عبدالرحمن، خطبہ جمعہ دیا کرتے تھے۔ یہ مسجد میرے اپارٹمنٹ سے پیدل پندرہ منٹ کے فاصلے پر تھی۔ اس مسجد میں زیادہ تر عرب مسلمان مہاجر آتے تھے۔ نمازِ جمعہ کے بعد مَیں نے وہ منظر بھی دیکھ رکھا ہے جب شیخ عمر عبدالرحمن کی ریکارڈ شدہ آڈیو ویڈیو کیسٹیں خاصی تعداد میں فروخت ہوتی تھیں۔
اور اُس روز تو یہ خبر ایک بم بن کر میرے سمیت نیویارک میں رہنے والے سبھی مسلمانوں پر گری کہ شیخ عمر عبدالرحمن کو چند قریبی ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا گیا ہے۔ شیخ عمر پر دہشت گردی اور دہشت گردی میں معاونت اور سہولت کاری کے کئی الزامات عائد کیے گئے تھے۔ خبر پڑھ کر رنج ہُوا تھا۔ بعدازاں مقدمہ چلا، طویل سماعت ہُوئی اور نابینا شیخ عمر عبدالرحمن کو بہت لمبی سزا سنا دی گئی۔ شیخ صاحب جیل ہی میں وفات پاگئے۔ اُن کی میت مصر لانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
گیارہ ستمبر کو دہشت گردی سے فنا کے گھاٹ اترنے والے نیویارک کے "ورلڈ ٹریڈ سینٹر" کی جگہ تعمیر ہونے والی "گراؤنڈ زیرو مسجد" سیکولر امریکا میں رواداری کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔ شیخ عمر عبدالرحمن کی امریکا اور امریکیوں کے خلاف مبینہ دہشت گردی کا سانحہ بھی امریکی تقریباً بھول چکے ہیں۔ جس مسجد میں وہ خطبہ دیا کرتے تھے، وہ بدستور اپنی جگہ قائم اور مسلمانوں کے لیے کھلی ہے۔
امریکیوں نے اسے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ پچھلے دنوں اسلام آباد میں پاکستان کی ہندو برادری کے لیے ایک نیا مندر تعمیر کرنے کی بات سامنے آئی تو اس کے خلاف بہت شور مچا۔ یہ شور ہم مسلمانوں کے جذبات کا آئینہ دار تھا۔ اس پر امریکا کے سب سے بڑے اخبار نے خبر شایع کی اوراس کی یوں سرخی جمائی Islamists Block Construction Of First Hindu Temple in Islamabad اخباری دُنیا میں یہ معاملات چلتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود ہمارے وزیر اعظم جناب عمران خان کوشش کررہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا روادار چہرہ روشن ہو کر دُنیا کے سامنے پیش ہوتا رہے۔ پاکستان کی ہندو، مسیحی اور سکھ کمیونٹی کے لیے اُن کی مساعی قابلِ تحسین ہے۔