کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
ٹھیک ستتر سال کے بعد جنگ کے بادل ایک بار پھر یورپ کی سرزمین پر چھائے ہیں۔ اس سے پہلے اللہ نے وارننگ کے طور پر اسی یورپ کے شہروں کو کرونا کے خوف میں مبتلا کیا اور ان کی ساری چکا چوند اور رنگا ررنگی لپیٹ کر رکھ دی۔ رقص گاہیں آباد رہیں اور نہ ہی جوئے کے دِلکش اڈے۔ فیشن زادیوں کے میک اپ حجاب نما ماسک کے پردے کے پیچھے چلے گئے اور قحبہ خانوں کی کسبیوں سے لوگ خوف کھانے لگے۔
میرے اللہ نے اس ناراضگی کو واضح کرنے کے لئے، افریقہ کے مفلس، غریب، بیمار اور بے سہولت لوگوں کو کرونا سے محفوظ رکھا اور یورپ کے مکینوں کو جو ہر طرح کی صحت و تندرستی کی تدابیر کے امین تھے، انہیں موت کی وادی میں اُتار دیا۔ اس واضح علامت کے بعد بھی، کسی ایک نے اپنے اجتماعی اعمال کی طرف دیکھنے اور ان پر غور کرنے کی کوشش نہیں کی۔
جنگِ عظیم دوّم کے بعد یورپ نے امریکہ کے زیر سایہ ایک منصوبے کے تحت جنگوں کو غریب ممالک کی سرحدوں میں زبردستی دھکیلا اور ان کے خون سے خوب دولت کمائی، تجوریاں بھریں اور اپنے لئے خوشحالی خریدی۔ کوریا کی تین سالہ (25 جون 1950ء سے 27 جولائی 1953ء تک)، کیوبا میں سول وار (26 جولائی 1953ء سے یکم جنوری 1959ء تک)، الجزائر کی جنگِ آزادی (یکم نومبر 1954ء سے 19 مارچ 1962ء تک) اور دس سالہ ویت نام جنگ (یکم نومبر 1955ء سے 1975ء تک)۔
امریکہ کے پڑوس میں ہونے کی وجہ سے لاطینی یا جنوبی امریکہ کے ممالک بیچارے کئی سال تک مسلسل خاک و خون میں غلطاں رہے۔ افریقہ کا کون سا ایسا ملک ہے جہاں معدنیات پر قبضہ کرنے کے لئے ان لوگوں نے وہاں کے عوام کو آپس میں نہ لڑوایا ہو۔ انگولا، موزمبیق، صومالیہ، ایتھوپیا غرض ان مظلوموں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ آٹھ سال تک جاری رہنے والی ایران عراق جنگ اور اسی دوران افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف لڑائی بھی ایک ساتھ لڑی جاتی رہی۔
سرد جنگ کے آغاز میں ہی اسرائیل کی ریاست کو برطانیہ کے "بالفور ڈیکلریشن" کے وعدے کے عرب سرزمین پر ایک ناسور کے طور پر تخلیق کیا گیا اور پوری مسلمان اُمت کے مقابلے میں اس کینسر کے مرض کو آج تک تحفظ دیا جا رہا ہے۔ گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد تو ایسا ہوا کہ جنگ کا جنون امریکہ اور یورپ کے ہر کوچہ بازار میں ایک اجتماعی پاگل پن کی شکل اختیار کر گیا۔ دُنیا بھر میں بسنے والا ہر مسلمان دہشت گرد اور شدت پسند کہلایا۔
افغانستان اور عراق پر یورپ کے سپاہی امریکی افواج کے ساتھ دندناتے ہوئے داخل ہوئے اور انہوں نے بیس سال سڑکوں، گلیوں، گھروں اور بازاروں میں مسلمانوں کا خون بہایا۔ لاکھوں یتیم، بیوہ، شہید اور بے گھر ہوئے، "عرب بہار" کے نام پر جب شام، یمن، لیبیا اور مصر میں انہی طاقتوں کا ٹکرائو ہوا تو ایسی قیامت برپا کی گئی کہ آج تک صرف شام اور یمن میں مرنے والوں کی تعداد دس لاکھ کے قریب ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا اس کائنات کے لئے ایک قانونِ فطرت ہے کہ جسے وہ تبدیل نہیں کرتا۔ وہ قوموں کے اجتماعی گناہوں کا بہت حد تک بدلہ، اسی دُنیا میں ضرور چکاتا ہے۔ اس "عذاب" یا "انتقام" کے پیچھے اللہ کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ اس طرح دُنیا میں امن قائم ہو۔ اللہ فرماتا ہے، "اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو بعض لوگوں سے دفع نہ کرتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا" (البقرہ:251)۔ پھر فرمایا، "اور یوں ہم ظالموں میں ایک کو دوسرے پر مسلّط کر دیتے ہیں، ان کے اپنے اعمال کے بدلے " (الانعام: 129)۔
کسی کو یاد ہے کہ عراق پر 2003ء میں حملہ کرنے والی افواج میں تیسرا بڑا گروہ یوکرائن کے فوجیوں کا تھا۔ لیکن وہ جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی آیات سے رمز آشنا ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ہر فرد کے گناہ اور جرم تو روزِ حشر اللہ کے روبرو فیصلے کے لئے پیش ہوں گے، لیکن قومیں جب بحیثیت مجموعی ظلم اختیار کرتی ہیں تو فیصلے اسی دُنیا میں صادر ہوتے ہیں۔ لوگ جلد باز ہوتے ہیں اور فوری نتائج کی تلاش میں اللہ سے شکوہ کرنے لگتے ہیں۔ بقول مولانا ظفر علی خان
نہ جا اس کے تحمل پر کہ بے ڈھب ہے گرفت اس کی
ڈر اس کی دیر گیری سے کہ ہے سخت انتقام اس کا
جو لوگ گذشتہ دو سالوں میں یورپ اور امریکہ میں کرونا سے ہونے والی پچاس لاکھ اموات کو میرے اللہ کی جانب سے ایک اشارہ نہیں سمجھتے رہے، اور اب جنگ کے شعلے ان کی جانب لپک چکے ہیں، ان کی یادداشتوں کو تازہ کرنے کے لئے عرض کروں کہ آج سے 926 سال قبل 1096ء میں یورپ نے مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں کا آغاز کیا تھا اور 345 سال پورا یورپ ایک وحشت ناک جنگی جنون کا شکار رہا۔ جس کے نتیجے میں لاکھوں معصوم انسانوں خصوصاً مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔
1271ء میں شکست خوردہ یورپ ابھی اپنے ملکوں میں سکون بھی نہیں لینے پایا تھا کہ سب سے پہلے اللہ نے 1315ء سے 1317ء تک پورے یورپ پر بے شمار بارشیں برسائیں گئیں جن کے نتیجے میں فصلیں نہ پک سکیں اور یورپ نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا قحط (Grand Famine) دیکھا جو لاکھوں لوگوں کی جان لے گیا۔ اس کے بعد اللہ نے طاعون (Plague) کی صورت ایک بھیانک موت ان پر مسلّط کر دی۔ اس کے جرثومے لے کر اللہ نے وسطی ایشیا اور شمالی افریقہ کی صحرائوں کو بارشوں سے مرطوب (Humid) فضا بنا کر پرورش دی اور اس جرثومے نے مکھیوں کی صورت سفر شروع کیا۔ یہ طاعون راستے کے ملکوں کو بخشتے ہوئے، سیدھا اپنے ٹارگٹ یورپ پہنچا اور یوکرائن کے علاقے کریمیا میں 1347ء میں حملہ آور ہوا۔
یورپ میں یہ مرض اس قدر پھیلا کہ ایک اندازے کے مطابق، تین چوتھائی یورپی آبادی موت کی آغوش میں چلی گئی۔ تاریخ کی ان تمام نشانیوں کے باوجود یورپ اور امریکہ کے عوام اور حکمرانوں نے نہ تو کرونا کی پچاس لاکھ اموات سے انسانیت کی راہ پکڑی اور نہ ہی اب جنگ کے ان لپکتے ہوئے شعلوں میں ان کے رویّوں میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ یورپ اور امریکہ کے میڈیا میں اس وقت یوکرائن کے مظلوم مہاجرین کی جو تصویر پیش کی جا رہی ہے وہ ان کے تکبّر اور دوسروں سے حقارت کی علامت ہے۔ یوکرائن کے شہریوں کو دکھاتے ہوئے، افغانستان، عراق اور افریقہ کے مہاجروں کی بھی ساتھ ہی تضحیک کی جا رہی ہے۔
بی بی سی پر کہا جا رہا تھا "یہ مہاجر کوئی افریقی تو نہیں ہیں، یہ تو نیلی آنکھوں، سنہرے بالوں والے سفید فام یورپی ہیں "، ایک اور چینل والے نے کہا کہ "یہ لوگ کوئی غیر مہذب اقوام کے افراد نہیں بلکہ یہ مہذب یورپی ہیں، ایک خاتون نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا کہ "یہ کوئی غیر ترقی یافتہ یا تیسری دُنیا کا ملک نہیں ہے، بلکہ یہ یورپ ہے، یہ خوش پوش خوشحال لوگ ہیں، پھٹے کپڑوں والے غریب نہیں ہیں "۔
کیا تکبّر ہے۔ ڈیلی ٹیلیگراف لکھتا ہے، یہ تو ہمارے جیسے ہیں وٹس ایپ اور انسٹاگرام استعمال کرنے والے، یہ کوئی جاہل افغان یا افریقی تو نہیں ہیں۔ یورپی یونین کے ممالک نے اعلان کیا ہے کہ ہم ان کے لئے دروازے کھول رہے ہیں، کیونکہ یہ سب تو ہمارے جیسے ہیں۔ میرے اللہ کو مزید ناراض کرنے کے لئے یہ تکبّر کافی ہے۔ اس کی سنت ہے وہ متکبر قوموں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا کرتا ہے۔ کوئی ہے کہ جو آج یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ یہ جنگ آسانی سے رُک جائے گی۔ کوئی بھی نہیں۔
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف