51 فیصد ووٹ، سو فیصد اختیار
گذشتہ ایک سو دو سال سے جو پارلیمانی نظام ہمیں میں ملا ہے، اس کے رگ و پے میں انگریز کے پروردہ خاندانوں کے چشم و چراغ، جس طرح موروثی حلقہ بندیوں کے بل بوتے پر سرایت کر چکے ہیں، اس سے اگلے دو سو سال کے جمہوری الیکشنوں اور مسلسل ایماندار اور خلوصِ نیت والی قیادتوں کے باوجود بھی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ یہ وہ خاردار جھاڑی ہے جس پر کبھی بھی عوام دوستی کے پھول نہیں کِھل سکتے۔
ہماری طرح کا پارلیمانی نظام ہی بھارت کو بھی تحفے میں ملا تھا۔ وہاں جمہوری مذہب کے ہر اشلوک پر عمل ہوا۔ کبھی کوئی طالع آزما جرنیل وہاں ملک و قوم کی قسمت بدلنے اقتدار پر قابض نہیں ہوا، جاگیرداری نظام کو بھی جواہر لال نہرو نے 1947ء میں ہی ختم کر دیا اور صوبوں کی صورت میں، انگریز نے جو سرحدیں بنائی تھیں ان کو بھی توڑ کر رکھ دیا۔ تقسیم سے پہلے وہاں دس صوبے تھے، جو آج اٹھائیس ہو چکے ہیں۔ لیکن کمال ہے کہ اس مسلسل جمہوری عمل کی کوکھ سے بھارتیہ جنتا پارٹی کا ایسا متعصب پودا برآمد ہوا کہ جس کا بدترین پھل نریندر مودی کی صورت میں گذشتہ آٹھ سال سے اقتدار کی زینت ہے۔
ستر سال مسلسل جمہوری عمل کا آخری نتیجہ ایسا برآمد ہوا ہے، آج دُنیا بھر کے دانشور پکار اُٹھے ہیں، کہ بھارت میں بہت جلد پندرہ فیصد اقلیت "مسلمانوں " کی نسل کشی شروع ہو سکتی ہے۔ حلقہ بندیوں والے جمہوری نظام کا یہی نتیجہ برآمد ہو سکتا تھا۔ وجہ یہ ہے کہ اس نظام کے تحت، کسی بھی حلقے میں موجود مسلمان اقلیت کو انتخاب کے اس متعصب طریقِ کار سے "غیر اہم" کیا جا سکتا ہے۔
بھارت کے 86 اضلاع میں مسلمان 20 فیصد سے زیادہ ہیں اور ان میں سے 19 اضلاع میں 50 فیصد سے بھی زیادہ ہیں۔ ان 19 میں سے 12 بھارت کے سب سے پسماندہ اضلاع ہیں، جن میں یو پی کا بلرام پور، بہار کا سیتامری، آسام کا کوکراجھار، بنگال کے ملدھا اور بھربھوم، جھاڑ کھنڈ کا وایاناد اور کیرالہ کا پالاکاد شامل ہیں۔ بھارت کے بڑے بڑے شہروں مثلاً ممبئی، بنارس، احمد آباد، اورنگ آباد میں مسلمانوں کی آبادی پینتیس فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
گذشتہ سال پنجاب کا ضلع ملیر کوٹلہ مردم شماری میں مسلم اکثریتی ضلع قرار دیا گیا ہے۔ اس اعلان کے فوراً بعد راشٹریہ سیوک سنگھ نے ایک قرارداد پیش کی کہ انہیں اس بات پر تشویش ہے کہ 2001ء کی مردم شماری سے موجودہ مردم شماری کے دوران آٹھ اضلاع مسلم اکثریتی اضلاع بن چکے ہیں۔ لیکن بھلا ہو اس شاطرانہ پارلیمانی جمہوری حلقہ بندیوں کا کہ اضلاع میں مسلمانوں کی اکثریت کے باوجود، بھارتیہ جنتا پارٹی نے 543 حلقوں میں سے 303 نشستیں جتیں، جن میں سے ایک بھی مسلمان نہیں جیتا۔
بھارت کے انیس فیصد مسلمان اس پارلیمان کے نقارخانے میں صرف 27 نشستیں لے سکے، جو کل ایوان کا 5 فیصد بنتی ہیں۔ اب جو حالات اس پارلیمانی جمہوری نظام نے پیدا کر دیئے ہیں، کوئی مسلمان بھارت میں آئندہ کسی سیاسی عہدے کی تمنا تک چھوڑ دے گا، بلکہ اسے تو اس جمہوری اکثریت کی آمریت میں اپنی زندگی کی حفاظت ممکن نہیں ہو سکے گی۔ حلقہ بندیوں کی یہ جمہوریت کسی ایک حلقے میں 49 فیصد ووٹ لینے والی اقلیت کو بھی صفر کے برابر کر دیتی ہے۔
یہی کیفیت پاکستان کے پارلیمانی جمہوری نظام کی بھی ہے جس سے وابستہ وہ وڈیرے، جاگیردار، سردار، چوہدری اور خان اس کو بدلنے نہیں دیتے اور ان کے مفادات کا تحفظ وہ جمہوریئے دانشور کرتے ہیں جنہوں نے 1973ء کے آئین کو صحیفۂ آسمانی سے بھی بلند درجہ دے رکھا ہے۔ گذشتہ الیکشنوں میں قومی اسمبلی میں پانچ کروڑ 31 لاکھ 23 ہزار سات سو تینتیس (5,31,23, 33) ووٹروں نے ووٹ ڈالے۔ اگر ان ووٹوں کو براہِ راست 272 سیٹوں پر تقسیم کیا جاتا تو جو پارٹی بھی ایک لاکھ پچانوے ہزار ووٹ بھی لیتی، تو اس کی ایک سیٹ قومی اسمبلی میں ہوتی۔ ایسے میں پاکستان کی جو قومی اسمبلی وجود میں آتی اس میں عوامی نمائندگی کا عالم ایسا ہوتا جو اسے ایک جاندار اسمبلی بنا دیتا۔ اس بنیاد پر سیٹوں کی نوعیت کا اندازہ کیجئے۔
تحریک انصاف 86، نون لیگ 66، پیپلز پارٹی 35، متحدہ مجلس عمل 13، تحریک لبیک 12، جی ڈی اے 6، عوامی نیشنل پارٹی 4، ایم کیو ایم 4، ق لیگ 3، بی این پی 2، اس کے علاوہ پاک سرزمین پارٹی، سندھ یونائیٹڈ فرنٹ اور پختونخواہ ملی پارٹی بھی ایک ایک سیٹ لے جاتیں۔ 2018ء کے اس انتخاب میں لوگ ذہنی طور پر پارٹی کو ووٹ دینے کیلئے تیار نہیں تھے، بلکہ انہوں نے امیدوار کو ووٹ ڈالے تھے۔
اگر براہِ راست پارٹیوں کو ووٹ ڈالنے کیلئے الیکشن کروائے گئے ہوتے تو وڈیرے، جاگیردار، سردار اور چوہدری بیچ میں سے نکل جاتے اور لوگ مقامی شخصیتوں سے بے نیاز ہو کر یا تو کسی نظریے کو ووٹ دیتے یا پھر اپنی پسند کی قیادت کو ووٹ ڈالتے۔ ایسے میں نتائج حیران کن ہوتے۔ یہی وہ طرزِ جمہوریت تھا جس کی وجہ سے پاکستان وجود میں آیا تھا۔ مسلمانانِ ہند کا مطالبہ تھا کہ اگر 51 فیصد ووٹوں کی برتری سے ہی ممبران منتخب ہونا ہیں تو پھر مسلمان اگلی کئی صدیاں بھی جیتنے کا تصور نہیں کر سکتے۔
51 فیصد ووٹ لینے والوں کو 100 فیصد قانون سازی کا اختیار کیسے دیا جا سکتا ہے۔ یکم اکتوبر 1906ء کو مسلمانوں کا ایک وفد سرآغا خان کی سربراہی میں وائسرائے لارڈ منٹو کے پاس گیا جس نے یہ مطالبہ کیا کہ ضلعی حکومتوں سے لے کر لیجسلیٹو کونسل تک ہر الیکشن میں مسلمانوں کو علیحدہ ووٹ دینے کا حق دیا جائے۔ سر آغا خان نے کہا کہ یو پی میں مسلمان چودہ فیصد ہیں، لیکن 1892ء کے متحدہ ووٹنگ کے الیکشن ایکٹ کے تحت وہ آج ایک بھی سیٹ حاصل نہیں کر سکے۔ وائسرائے نے وعدہ کیا کہ وہ تاجِ برطانیہ سے بات کرے گا۔ اس وعدے پر دسمبر 1906ء میں مسلمانوں نے اپنی علیحدہ سیاسی پارٹی مسلم لیگ بنا لی۔
مسلمانوں کے مطالبے پر 1909ء میں منٹو مارلے اصلاحات کی گئیں جس کے تحت 27 نشستوں میں سے پانچ مسلمانوں کیلئے مختص کر دی گئیں۔ کانگریس نے بھی مسلم لیگ کی رائے سے اتفاق کیا اور 1911ء میں دونوں کے درمیان لکھنؤ پیکٹ ہوا، جس کے تحت مسلمانوں کیلئے مرکزی قانون ساز اسمبلی میں ایک تہائی سیٹ رکھ دی گئیں۔ کانگریس اور مسلم لیگ کے اس پیکٹ کو 1919ء میں مانٹیگو چیمسفورڈ اصلاحات کے تحت نافذ کر دیا گیا۔
کانگریس کو جب اس کا اندازہ ہوا کہ اس طرح مسلمان قانون سازی میں برابر کے شریک بنتے جا رہے ہیں تو وہ معاہدے سے پھرنے لگی۔ اس صورت حال میں مسلم لیگ نے مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن کا مطالبہ کر دیا، جبکہ کانگریس نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ پورے ہندوستان کے ہندو اور مسلمان دونوں کی نمائندہ ہے، اس لئے تقسیم کی مخالفت کرتی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا مرحلہ اور امتحان تھا۔ اگر اس وقت حلقہ بندیوں میں ہندو مسلم یکساں ووٹ دے رہے ہوتے تو پاکستان کبھی معرضِ وجود میں نہ آتا۔
قائد اعظمؒ نے دعویٰ کیا کہ صرف مسلم لیگ ہی مسلمانانِ ہند کی نمائندہ ہے اور دسمبر 1945ء کے الیکشنوں میں مسلمانوں کیلئے جو 30 نشستیں مخصوص تھیں، وہ تمام کی تمام مسلم لیگ نے جیت لیں اور یوں مسلم لیگ کے علیحدہ وطن کے مطالبے پر مہرِ تصدیق ثبت ہو گئی۔ آزادی کے بعد کانگریس نے پہلا کام یہ کیا کہ بھارتی آئین میں متناسب نمائندگی کو ختم کر کے حلقہ بندیوں کا راستہ اختیار کیا اور آج اس طریقِ کار کے بدترین اور خوفناک نتائج بھارت میں برآمد ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں بھی مغربی طرزِ جمہوریت کو ایمان کی حد تک ماننے والوں نے وہی راستہ اپنایا، جس کے نتیجے میں آج تک ایسی اسبملیاں وجود میں آتی رہی ہیں جن میں زیادہ سے زیادہ بیس فیصد ووٹ لینے والا اسمبلی کا ممبر بن جاتا ہے۔ یوں اس ملک میں ہر طرح کی مذہبی، نظریاتی اور سیاسی اقلیت کا گلا گھونٹ کر حلقہ بندیوں کے وڈیروں، جاگیرداروں، چودھریوں اور خانوں کو اقتدار کا مالک بنایا گیا۔ ایسی جمہوریت میں ملک کی جو حالت ہوئی ہے وہ تو ہونا ہی تھی۔