کشمیر یوں کی تحریک… ایک تجویز
وزیر اعظم عمران خان اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر اٹھانے کے لیے امریکا جا رہے ہیں۔ کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے احتجاجی مظاہرے کی بھی تیاری کی جا رہی ہے۔ زلفی بخاری امریکا پہنچ چکے ہیں۔ نعیم الحق جا رہے ہیں۔ ادھر نریندر مودی بھی امریکا میں ہوں گے۔ وہ ہیو سٹن میں بھارتی کمیونٹی سے خطاب کریں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی وہاں ہوں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی مودی کے ساتھ بھارتیوں کے اجتماع میں شرکت ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کا جنازہ نکال دے گی۔ عمران خان کے بقول ٹرمپ سے گزشتہ ملاقات کے بعد وطن واپسی پر انھیں ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ورلڈ کپ جیت کر آئے ہیں۔
لیکن مودی اور ٹرمپ کے اس مشترکہ خطاب سے اس ورلڈ کپ کا خوب دھوم سے جنازہ نکلے گا۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی اقدام کے بعد سے دنیا بھر میں کشمیریوں کے حق میں مظاہرے ہوئے ہیں۔ ان مظاہروں میں کشمیریوں کے ساتھ سکھ برادری نے بھی شرکت کی ہے۔ مجھے ہر مظاہرے میں سکھ نظر آئے ہیں۔ بھارتی پنجاب میں بھی سکھوں نے کشمیر کے حق میں مظاہرے کیے ہیں۔
اس کی خبریں بھی سوشل میڈیا پر نظر آئی ہیں۔ سکھوں کی جانب سے کشمیر یوں کے ساتھ اظہار یکجہتی خوش آیند ہے۔ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ تا ہم سوچنے کی بات یہ ہے کہ سکھوں کی پاکستان اور کشمیریوں کے ساتھ یکطرفہ محبت آخر کب تک چلے گی؟ کیا اس ضمن میں ہماری کوئی ذمے داری نہیں ہے۔ کون نہیں جانتاکہ بھارت اور پوری دنیا کے سکھ بالخصوص خالصتان کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں۔ خالصتان کے قیام کے لیے سکھ برادری نے بہت قربانیاں دی ہیں۔
ایک وقت تھا کہ پاکستان خالصتان کی تحریک کی بھی ویسے ہی حمایت کرتا تھا جیسے ہم کشمیریوں کی تحریک کی کرتے ہیں۔ بھارتی پنجاب میں خالصتان کی تحریک عروج پر تھی۔ لیکن پھر بھارت نے خالصتان کی تحریک کے ساتھ بھی وہی حکمت عملی اپنائی جو آج کل کشمیر کی تحریک کے ساتھ اپنائی جا رہی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو مودی جو آج کشمیر میں کر رہا ہے یہ سب اندرا گاندھی اس پہلے بھارتی پنجاب میں سکھوں کے ساتھ کر چکی ہیں۔ سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل پر بھارتی فوج نے ٹینکوں اور بھاری اسلحہ سے نہ صرف حملہ کیا بلکہ خالصتان تحریک کے رہنماؤں اور حامیوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ بھارتی پنجاب میں ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ بھارتی پنجاب کے ٹکرے کیے گئے۔ بالکل ویسے ہی آج مقبوضہ کشمیر میں کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جب خالصتان کے لیے جدوجہد کرنے والے سکھ لیڈرز سے ملاقات ہوتی ہے تو جہاں وہ بھارت سے علیحدگی کے لیے پاکستان کی مدد کے طلبگار نظر آتے ہیں وہاں انھیں پاکستان سے بہت گلے بھی ہیں۔ انھیں گلہ ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر خالصتان کی تحریک کی حمایت نہیں کرتا۔ لیکن ان گلے شکوؤں کے باوجود سکھ ہمارے ساتھ ہیں۔
پاکستان میں سکھ رہنماؤں کی لسٹیں بھارت کو فراہم کرنے کے حوالے سے ایک تنازعہ رہا ہے۔ سیاسی قائدین ایک دوسرے پر الزام لگاتے رہے۔ میں ان الزامات کی حقیقت پر نہیں جانا چاہتا۔ نہ ہی مجھے حقیقت معلوم ہے۔ لیکن سکھ رہنماؤں میں اس ضمن میں ایک ناراضی موجود ہے۔ تا ہم اس کے باوجود سکھوں اور پاکستان کے درمیان ایک ہم آہنگی موجود رہی ہے۔ آج مودی کے کشمیر میں مظالم کے بعد سکھوں نے پوری دنیا میں جس طرح پاکستان اور کشمیریوں کا ساتھ دیا ہے۔
اس کے بعد یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم بھی کچھ کریں اور ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کریں۔ مجھے اندازہ ہے کہ کشمیر کے لیے اقوام متحدہ کی قرار دادیں موجود ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان شملہ سمیت متعدد معاہدے موجود ہیں۔ اس تنازعہ کو عالمی سطح پر ایک تنازعہ کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔
جب کہ خالصتان کی تحریک کی ایسی شکل نہیں۔ لیکن پھر بھی اس تحریک سے اب انکار ممکن نہیں۔ مجھے علم ہے کہ دوست کہیں گے کہ اگر پاکستان عالمی سطح پر خالصتان کی تحریک کے ساتھ کھڑا ہوگا تو بھارت بھی پاکستان کے اندر ایسے تحریکوں کی دنیامیں حمایت شروع کر دے گا۔ لیکن کیا بھارت بلوچستان کی شورش میں ملوث نہیں؟ کیا ان کو بھارتی سفارتخانوں کی حمایت حاصل نہیں ہے؟کیا بھارتی سفارتخانے ان کے لیے لابنگ کاکام نہیں کرتے۔ جب کہ خالصتان کی تحریک نے تو پاکستان کی مدد کے بغیر عالمی سطح پر خالصتان کو منوایا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کے تمام ممالک میں کشمیری اور سکھ ملکر اپنی جدو جہد کریں۔ کشمیریوں اور سکھوں کے مشترکہ پلیٹ فارم بننے چاہیے۔ انھیں مشترکہ لابنگ کے لیے مشترکہ راستے تلاش کرنے چاہیے۔ پاکستان نے پوری دنیا میں اپنے سفارتخانوں میں کشمیر ڈیسک بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس ڈیسک کو سکھوں کے ساتھ تعاون کرنے کی بھی ہدایت کی جائے۔ اس سے سکھوں اور پاکستان کے درمیان ماضی کے گلے شکوؤں کو دور کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
اگر قطر میں طالبان کا دفتر کھل سکتا ہے تو پاکستان میں خالصتان کا دفتر کیوں نہیں کھل سکتا۔ اگر دنیامیں دیگر پر امن تحریکوں کو سیاسی طور پر قبولیت دی جا سکتی ہے تو پاکستان خالصتان کی تحریک کو recognition کیوں نہیں دے سکتا۔ آج سکھوں کو گلہ ہے کہ جب پاکستان مودی کو ہٹلر سے تشبیہ دے رہے ہیں تو پھر بھارت میں سکھوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کا ذکر کیوں نہیں کیا جاتا ہے۔
گرجہ گھروں پر بھارت میں تشدد کی بات کی جاتی ہے، لیکن گولڈن ٹیمپل کا نام نہیں لیا جاتا۔ حال ہی میں عمران خان نے ہیو سٹن میں جب ایک اجتماع سے ویڈیو خطاب کیا تو وہاں سکھوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، اس کا مثبت جواب دیا جانا چاہیے۔ ایک طرف ہم سکھوں کے ساتھ اپنے خوشگوار تعلقات پر فخر کرتے ہیں۔ ا سی لیے کرتار پور کھولا جا رہا ہے۔ لیکن دوسری طرف ہم سکھوں کی جائز جدو جہد کا نام لینے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ اس لیے اس پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ سکھ اور کشمیری ملکر دنیا میں بھارت کی سفارتکاری کا نہ صرف مقابلہ کر سکتے ہیں بلکہ اسے شکست بھی دے سکتے ہیں۔