اگر ہم جیت گئے
یہ خالصتان موومنٹ کا واقعہ ہے، سکھوں کے رہنما کینیڈا میں جمع ہوئے اورخالصتان کو چلانے کی منصوبہ بندی کرنے لگے، منصوبہ بندی کے دوران ملک کے معاشی مسائل کے حل کا مرحلہ آ گیا، سکھ لیڈروں کا خیال تھا خالصتان کو شدید معاشی مسائل کا سامنا ہو گا کیونکہ یہ ملک پاکستان اور بھارت جیسے دو دشمنوں کے درمیان ہو گا، سکھوں نے 1947ء میں مسلمانوں پر بے تحاشا ظلم کیے، پاکستان کے لوگ ابھی تک یہ مظالم نہیں بھولے، یہ بھارت سے لڑ کر نیا ملک حاصل کریں گے چنانچہ انڈیا بھی خالصتان سے خوش نہیں ہو گا چنانچہ خالصتان دو دشمنوں کے درمیان " لینڈ لاکڈ" ملک ہو گا اور یوں اسے شدید مالیاتی بحرانوں کا سامنا کرنا ہو گا، سکھ رہنمائوں کا خیال تھا ہمیں ملک سے پہلے معاشی استحکام کا فارمولہ بنا لینا چاہیے تا کہ ہم آزادی کے بعد آرام سے ملک چلا سکیں، سکھ اس کے بعد معاشی پلاننگ کرنے لگے، کسی نے کہا، ہم ٹورازم کو بہتر بنائیں گے، دنیا جہاں سے سیاح آئیں گے اور یوں خالصتان امیر ہو جائے گا لیکن سوال پیدا ہوا پنجاب میں دیکھنے والی کوئی خاص چیز نہیں لہٰذا سیاح کیوں آئیں گے، کسی نے مشورہ دیا ہم انڈسٹری ڈیویلپ کریں گے لیکن پھر سوال اٹھا ہم اپنی مصنوعات کس کو بیچیں گے، پاکستان اور انڈیا دونوں ہماری پراڈکٹس نہیں خریدیں گے۔
کسی نے تجویز دی ہم اپنی زراعت کو مزید بہتر بنا لیں گے لیکن پھر اعتراض آیا انڈیا اور پاکستان دونوں ہمارے گنڈے پیاز نہیں خریدیں گے چنانچہ خالصتان زرعی پیداوار کے باوجود خوشحال نہیں ہو سکے گا۔ میٹنگ کے دوران خالصتان کی خوشحالی کا معاملہ الجھ گیا، سکھوں کے سرپنچ نے اچانک سر اٹھایا اور حاضرین کو مخاطب کر کے بولا " میں نے مسئلے کا حل ڈھونڈ لیا" سکھوں نے پوچھا "چاچا وہ حل کیا ہے" سرپنچ نے جواب دیا " ہم ملک بناتے ہی امریکا سے جنگ چھیڑ دیں گے اور خوشحال ہو جائیں گے" نوجوان سکھ لیڈروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، گھڑی کی طرف دیکھا اور پھر سرپنچ کی طرف دیکھ کر بولے " چاچا بات پلے نہیں پڑی" سرپنچ نے مسکرا کر جواب دیا "بے وقوفو! تم تاریخ پڑھو، امریکا نے آج تک جس ملک کو جنگ میں ہرایا، یہ اسے قدموں پر کھڑا کر کے وہاں سے نکلا" نوجوان دلچسپی سے سرپنچ کو دیکھنے لگے، سرپنچ نے بتایا "امریکا نے دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کو شکست دی اور جرمنی میں بیٹھ گیا اور جرمنی جب تک اپنے قدموں پر کھڑا نہیں ہوا، امریکا اس وقت تک اس کی مدد کرتا رہا، امریکا نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان کو بھی تباہ کر دیا مگر یہ اس کے بعد وہاں رہا اور جاپان جب تک معاشی اور صنعتی لحاظ سے کامیاب نہیں ہوا، امریکا اس کی مدد کرتا رہا، آپ لوگ اسی طرح پانامہ، چلی اور میکسیکو کو لے لو، آپ ویتنام کی مثال بھی لے لو اور آپ عرب ملکوں کو بھی دیکھ لو، امریکا نے اپنے ہر مفتوح ملک کو سپورٹ کیا چنانچہ ہم خالصتان بنانے کے فوراً بعد امریکا سے جنگ چھیڑ لیں گے، امریکا ہمیں فتح کرے گا اور اس وقت تک خالصتان میں بیٹھے گا جب تک ہم اپنے قدموں پر کھڑے نہیں ہو جاتے" تمام شرکاء نے تالیاں بجا کر تجویز کا خیر مقدم کیالیکن میٹنگ میں موجود ایک نوجوان خاموشی سے گردن کھجاتارہا، سرپنچ اس کی طرف مڑا اور اس سے پوچھا " ہیپی سنگھ کیا تمہیں یہ تجویز پسند نہیں آئی" نوجوان سکھ نے گردن کھجاتے کھجاتے عرض کیا " بھا جی میں سوچ رہا ہوں ہم اگر امریکا سے جنگ جیت گئے تو پھر ہمارا کیا بنے گا، ہم تو بھوکے مر جائیں گے"۔
یہ واقعہ لطیفہ ہے اور ہم یقیناً اس لطیفے پر ہنسیں گے لیکن دنیا کے تمام لطائف محض لطائف نہیں ہوتے یہ اپنی ذات میں گہرا فلسفہ بھی ہوتے ہیں، آپ اگر زندگی میں مسائل کا شکار ہو جائیں اور آپ کو ان مسائل کا کوئی حل نہ مل رہا ہو تو آپ لطائف کی کتابیں خریدیں اور ان کا مطالعہ شروع کر دیں، آپ کو ان کتابوں میں اپنے ہر مسئلے کا حل مل جائے گا، یہ نسخہ دنیا جہاں کے لیڈرز، ورلڈ کلاس بزنس ٹائی کونز اور دنیا کے بڑے سائنس دان اور فلاسفر بھی استعمال کرتے ہیں اور اس سے بھرپور فائدہ بھی اٹھاتے ہیں، یہ لطیفہ بھی دنیا کی بڑی بڑی سیاسی کنفیوژن کا حل پیش کرتا ہے، تیسری دنیا کی اکثر تحریکیں نتائج کا اندازہ لگائے بغیر شروع ہو جاتی ہیں اور معاشروں کو مزید بحرانوں کا شکار کر دیتی ہیں مثلاً، آپ آج کے واقعات کو لے لیجیے، علامہ طاہر القادری تین دن بعد لانگ مارچ کے ساتھ اسلام آباد تشریف لا رہے ہیں، ہم اگر سیاسی اور گروہی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر سچے دل سے فیصلہ کریں تو ہمیں علامہ طاہر القادری کے مطالبات غلط نہیں لگیں گے۔
یہ حقیقت چار سو فیصد درست ہے ہماری جمہوریت، ہمارا آئین، ہماری پارلیمنٹ اور ہمارا سسٹم عوام کو کچھ نہیں دے رہا، ہمارے انتخابی نظام سے صرف اور صرف طاقتور، رئیس، جاگیردار، سرمایہ دار، مجرم اور کرپٹ لوگ ہی جنم لے سکتے ہیں، آپ کی ڈگری جعلی ہے، آپ پر خواہ قتل اور لوٹ کھسوٹ کے درجنوں پرچے درج ہیں یا پھر آپ نے کرپشن کی انتہا کو چھو لیا ہو آپ اگر مضبوط ہیں تو آپ کو یہ سسٹم ایم پی اے، ایم این اے یا سینیٹر بننے سے نہیں روک سکے گا، یہ حقیقت بھی چار سو فیصد درست ہے ہماری سیاسی جماعتیں فیکٹریوں اور جاگیروں کی طرح چل رہی ہیں، آپ اگر سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں اور آپ کی پارٹی نے پانچ نشستیں جیت لی ہیں تو آپ گویا پانچ ملوں یا پانچ مربع کمرشل زمین کے مالک بن گئے ہیں اور آپ کو ہر ایم این اے، ہر ایم پی اے فیکٹری یا زمین کی طرح کما کر دے گا اور یہ حقیقت بھی چار سو گنا درست ہے ہم جب تک پورا نظام تبدیل نہیں کریں گے، ہم جب تک اعلیٰ عہدوں پر اہل ترین لوگوں کو نہیں بٹھائیں گے، ملک کے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہوں گے، آپ دل پر ہاتھ رکھ کربتائیے ہمارے موجودہ حکمرانوں میں کوئی ایک شخص دنیا کی ساتویں جوہری طاقت کی قیادت کا اہل ہے؟ کیا ان میں کوئی ایک وزیر وزارت کے قابل ہے، اگر نہیں تو پھر علامہ طاہر القادری کا ہر اعتراض، ہر مطالبہ درست ہے لیکن علامہ صاحب کی تمام تر سچائی کے باوجود جہاں تک مارچ کا معاملہ ہے، یہ سکھوں کی فلاسفی دکھائی دیتا ہے، علامہ صاحب نے لانگ مارچ کا منصوبہ بناتے ہوئے ہرگز یہ نہیں سوچا ہم اگر کامیاب ہو گئے تو ہمارا کیا بنے گا؟
ہم اگر دس بیس لاکھ لوگوں کو اسلام آباد لے گئے، ان میں سے ایک دو لاکھ لوگوں نے دھرنا دے دیا، حکومت لرز گئی، صدر اور وزیراعظم نے ہجوم کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور فوج اور عدلیہ نے علامہ صاحب کی حمایت کر دی تو کیا بنے گا؟ کیا ہمارے پاس کوئی متبادل نظام موجود ہے؟ کیا ہم آئین میں اصلاحات کر سکیں گے، ہم کن لوگوں کو نگران بنائیں گے اور کیا یہ نگران ملک کو بنیادی مسائل سے نکال سکیں گے، یہ نگران کب تک حکمران رہیں گے اور نگرانوں کے بعد جب الیکشن ہونگے اور ان الیکشنوں میں اگر یہی لوگ دوبارہ منتخب ہو کر آ گئے تو ملک کا کیا بنے گا؟ لانگ مارچ میں بم دھماکے ہو گئے، سیکیورٹی جواب دے گئی یا پھر ملک کے ایک دو بڑے رہنما قتل ہو گئے اور اس قتل کے بعد خانہ جنگی شروع ہو گئی تو ملک کو کون بچائے گا اور اگر اس افراتفری یا لانگ مارچ کی وجہ سے ملک میں مارشل لاء لگ گیا تو اس کا ذمے دار کون ہو گا؟ قوم کو اس مارشل لاء سے جان چھڑانے کے لیے کتنے سال جدوجہد کرنا ہوگی اور اس مارشل لاء کے بعد بھی اگر بلاول بھٹو زرداری یا حمزہ شہباز وزیراعظم بن گئے تو کیا ہوگا؟ کیا علامہ صاحب نے اس کے بارے میں بھی سوچا؟ انقلاب ضرور آنا چاہیے کیونکہ ہمیں واقعی انقلاب کی ضرورت ہے مگر انقلاب کے لیے مکمل بندوبست بھی ہونا چاہیے، ہمیں باقاعدہ پلاننگ بھی کرنی چاہیے کیونکہ انسان کے پاس اگر متبادل سسٹم نہ ہو تو اس کی فتح شکست سے بڑا بحران ثابت ہوتی ہے، یہ جیت کر عذاب کا شکار ہو جاتا ہے اور مجھے علامہ صاحب کی تحریک سے اسی خطرے کی بو آ رہی ہے، یہ ناکام ہو گئے تو بھی ملک تباہ ہو جائے گا اور یہ کامیاب ہو گئے تو بھی ملک برباد ہو جائے گا کیونکہ ان کے پاس ناکامی سے نبٹنے کا کوئی فارمولہ ہے اور نہ ہی کامیابی کو ہضم کرنے کا کوئی منصوبہ۔