اسرائیل اور فلسطینی تحریک
پاکستان کی ہر پارٹی کو اپنی طاقت دکھانے کا شوق ہے۔ اس لیے ہر پارٹی فلسطین کے عوام سے اظہار ہمدردی کے لیے الگ جلوس نکال رہی ہے حالانکہ مسئلہ پارٹیوں کا نہیں بلکہ پوری امت کا ہے، کسی بھی پارٹی کی اسٹریٹ پاور چند ہزار افراد سے زیادہ نہیں لیکن ہر کوئی اپنا جھنڈا اور بینر اٹھا کر ملین مارچ نکالنے کے چکر میں ہے۔
اگر تمام مسلمان اس ظلم و بربریت پر بھی اتفاق کا مظاہرہ نہیں کر سکتے تو پھر کس مسئلے پر متحد ہوں گے؟ یہ تو ہماری" نیل کی ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر "امت کے اتحاد کا قصہ ہے۔ اب آئیے موجودہ اسرائیلی بمباری اور فلسطینیوں کی مظلومیت پر، یہ سب فلسطین کے مزاحمت کی تحریک کے اندر انتشار اور اختلافات کا اثر ہے۔
2نومبر 1917کو اعلان بالفور کو ایک سو چار (104) سال ہوگئے ہیں، اس اعلان کا2017میں اسرائیل میں سو سالہ جشن منایا گیا، کیونکہ اس اعلان کی وجہ سے اسرائیل کا قیام ممکن ہوا، لیکن فلسطینیوں نے سوگ منایا، کیونکہ اس کی وجہ سے اسرائیل کی ریاست ان کی زمین پر قائم ہوئی۔ 2نومبر 1917کو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے اعلان کیا کہ"برطانیہ کی حکومت یہودیوں کے لیے فلسطین کی زمین پر ایک قومی ریاست کے قیام کی حمایت کرتی ہے"۔
کہنے کو تو یہ ایک پیراگراف تھا جو 67الفاظ پر مشتمل تھا، لیکن ان الفاظ کے پشت پر ایک عالمی طاقت برطانیہ، کی طرف سے یہودیوں کی صیہونی تحریک کی حمایت تھی جنگ عظیم اول میں جرمنی کو شکست دینے کے لیے برطانیہ کو یہودیوں کی مدد کی ضرورت تھی، انھوں نے اعلان بالفور کے ذریعے ریاست اسرائیل کے قیام کا وعدہ کیا اور یہودیوں نے جرمنی کی شکست میں اہم کردار ادا کیا۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو، کو برطانیہ نے اعلان بالفور کی سالگرہ منانے کے لیے لندن مدعو کیا، لیبر پارٹی کے لیڈر جیرمی کاربائن نے ڈنر میں شرکت سے انکار کردیا، فلسطینیوں نے اس دن رملہ میں ایک بڑا مظاہرہ کیا اور اعلان بالفور پر برطانیہ سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا، 70کی دھائی میں فلسطین کی آزادی کی جدوجہد میں مختلف تنظیمیں بر سر پیکا ر تھیں، ان میں یاسر عرفات کی الفتح اور جارج حباش کی پاپولر فرنٹ سب سے اہم تھیں۔
الفتح کی قیادت زیادہ تر مسلمانوں پر مشتمل تھی، پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین کی قیادت اور اس کے ممبران میں عیسائیوں کی اکثریت تھی، جارج حباش اور لیلی خالد باوجود یہ کہ عیسائی تھے لیکن ان کے فلسطین کی آزادی کے لیے کارنامے تاریخی حیثیت رکھتے ہیں، ان کے علاوہ دیگر تنظیمیں بھی تھیں، جن میں الصاعقہ اور ڈیموکریٹک فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین شامل تھیں، پھریہ تمام تنظیمیں متحد ہوکر پی ایل او (تنظیم برائے آزادی فلسطین) بن گئیں اور یاسرعرفات اس تنظیم کے سربراہ بن گئے۔
یہ تمام فلسطینی اس جنگ کو قومی آزادی کی بنیاد پر لڑ رہے تھے، حماس کے قیام کے بعد فلسطینیوں کے درمیان اتفاق ختم ہوگیا، فلسطینی اسرائیل کے بجائے آپس میں زیادہ لڑ نے لگے، الفتح اصل میں PLOکی باقیات ہے اور ایک جمہوری اور سیکولر تحریک ہے، یاسر عرفات کی موت کے بعد اس کی قیادت محمود عباس کر رہے ہیں، یہ فلسطین کے صدر بھی ہیں، حماس اپنے آپ کو اسلامی مزاحمتی تحریک کہتی ہے اور ایک اسلامی فلسطین کے لیے جدوجہد کر ر ہی ہے۔
اس کے لیڈر خالد مشعل شام میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے، اس کی جدوجہد اسرائیل کے بجائے زیادہ تر فتح کے خلاف ہے، وہ اپنے اسلامی ایجنڈے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ فتح کو قرار دیتی ہے، یہ دونوں گروپ ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار رہتے ہیں، عرب ممالک اور بیرونی دنیا اس لڑائی کو" فلسطین کی خانہ جنگی" کہتے ہیں۔
حماس اور الفتح کی لڑائی کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو پہنچا ہے اور دشمن نے اس کا پورا فائدہ اٹھایا، حماس کو اب عقل آرہی ہے اور وہ فتح کے ساتھ ایک پرامن معاہدے اور ایک فلسطینی حکومت کے قیام کی طرف بڑھ رہے ہیں، لیکن فلسطین کی قومی تحریک تو تباہ ہوگئی، یہ حال کشمیر کی قومی تحریک کا بھی انتہا پسندوں کے ہاتھو ںہوا۔
دنیا میں فلسطینیوں کی کل تعداد تقریباً ایک کروڑ 20لاکھ ہے، 25لاکھ مغربی کنارے میں اور15لاکھ غزہ کی پٹی میں رہتے ہیں، اردن میں 19لاکھ، اسرائیل میں 13لاکھ، شام میں 6لاکھ، عرب دنیا سے باہر ان کی سب سے بڑی آبادی تقریباً5لاکھ لاطینی امریکا کے ملک چلی میں ہے، آج فلسطینی نظریاتی طور پر دو بڑے گروپوں میں تقسیم ہیں، یہ دونوں گروپ ایک دوسرے کے سخت مخالف ہیں، الفتح اور حماس نے فلسطینیوں کو بری طرح تقسیم کر دیا ہے، الفتح مغربی کنارے میں حکمران ہے اور حماس غزہ کی پٹی میں حکومت کر رہی ہے، ایک ملک میں دو حکومتیں؟
فلسطینی ریاست دو مختلف علاقوں پر مشتمل ہے، مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے درمیان اسرائیل کا علاقہ ہے، ان دونوں علاقوں میں کسی بھی مسئلے پر ہم آہنگی نہیں ہے، کیونکہ دونوں جگہ مختلف حکومتیں قائم ہیں۔ برطانوی سامراج کے وزیر خارجہ بالفور کی سازشوں کے نتیجے میں وجود میں آنے والی ریاست اسرائیل جہاں پر دنیا بھر کے یہودیوں کو لاکر آباد کیا گیا اور اس طرح فلسطین کی سرزمین پرعربوں کے دل میں سامراج نے ایک خنجر گاڑ دیا، اسرائیل امریکی سامراج کا دنیا میں سب سے پیارا بیٹا ہے اور اس کا وجود بھی امریکی مدد کا محتاج ہے۔
مشرق وسطی کا پورا خطہ اس کی وجہ سے بدامنی کا شکار ہے، اسرائیل کی حفاظت کے لیے سامراجی طاقتوں نے اس کے لیے خطرہ بننے والے عرب ترقی پسند حکمرانوں، صدر ناصر، صدام حسین، معمر قذافی کو ختم اور بشارہ الاسد اور ایرانی حکومت کو مفلوج کردیا۔ امریکا اور پوری سامراجی دنیا کو جان لیناچاہیے کہ امن صرف اسی وقت ممکن ہوگا جب اسرائیل کی ریاست کی عالمی قوانین کی پابندی کرے، اس کی مجرمانہ کاروائیوں پر اس کو سزا دی جائے۔ شمالی کوریا، ایران اور وینزو یلا بدمعاش ریاستیں نہیں بلکہ اصل مجرم اسرائیلی ریاست کو مانا جائے۔ ایک طرف مسلمان ملکوں کے مفادات اور دوسری طرف فلسطین کی تحریک آزادی کی تقسیم نے معاملہ مزید بگاڑ دیا۔ باقی قصہ بعد میں۔