ہمارا ادب جمود کا شکار کیوں؟
کسی بھی معاشرے کی بنیاد دو رجحانات پر ہوتی ہے، جمالیات اور اخلاقیات۔ معاشرے کو توازن میں رکھنے کے لیے ان دونوں رجحانات کا ہونا ضروری ہے۔ میں اپنے متعدد کالموں میں اس بات کا اظہار کرچکا ہوں کہ ایک ماہر معیشت آپ کو غربت اور افلاس کے خاتمے کے لیے بہترین معاشی پالیسی بنا کر دے سکتا ہے۔
ایک فلاسفر زندگی گزارنے کا نیا ڈھنگ پیش کرکے انقلاب کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ ایک فوجی جنرل آپ کو جنگی تربیت دے کر آپ میں لڑنے کی صلاحیت پیدا کرسکتا ہے لیکن غریبوں سے ہمدردی کا جذبہ اور انقلاب کی نوید کا احساس اپنے ڈراموں، ناول، کہانیوں اور افسانوں کے ذریعے ایک ادیب ہی پیدا کرسکتا ہے۔ اسی طرح لڑائی کا جذبہ اپنے گیتوں، نغموں اور نظموں کے ذریعے ایک شاعر ہی پیدا کرسکتا ہے۔
اس لیے کسی بھی معاشرے میں ادب کی اہمیت اور افادیت سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا۔ ادیبوں اور شاعروں کو اپنے احساس اور جذبات دوسروں تک منتقل کرنے کے فن میں قدرت حاصل ہوتی ہے۔
ادبی تحریریں اس لحاظ سے ممتاز اور الگ ہوتی ہیں کہ اس میں بات کو خوبصورت طریقے سے کہنے کا سلیقہ ہوتا ہے ایسی تحریریں ہمارے باطن کا حصہ بن جاتی ہیں اور ہمارے جذبات کو احساس کی قوت عطا کرتی ہیں۔
احساس کی یہ قوت ہی معاشرے کو متوازن رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ہر معاشرے کے کچھ جذباتی مسائل ہوتے ہیں جب یہ مسائل اجتماعی مسائل کی صورت اختیار کر لیتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ادبی تحریکیں وجود میں آتی ہیں ہمارے یہاں بھی ادب کی مختلف تحریکوں کا وجود رہا ہے ادب برائے ادب، ادب برائے زندگی، ادب برائے بندگی، ادب برائے پاکستان۔ ان تحریکوں کے زیر اثر ترقی پسند ادب، حلقہ ارباب ذوق، اسلامی ادب، پاکستانی ادب اور سائنسی ادب جیسی تنظیموں نے جنم لیا۔
یہ تحریکیں اور تنظیمیں اپنی اپنی فکری بنیادوں پر وجود میں آئیں۔ ان تحریکوں کے مابین فکری بنیادوں پر کشمکش اور تصادم بھی رہا اور ایک عرصے تک ان کے درمیان قلمی جنگ بھی جاری رہی۔ مگر ان تنظیموں میں چھوٹا پن نہیں تھا۔ سب ایک دوسرے سے ملتے تھے نظریاتی اختلافات کے باوجود ان کے مابین انسانی تعلقات بڑے مضبوط تھے۔ ان تحریکوں اور تنظیموں نے اپنی اپنی فکر کی روشنی میں ادبی تخلیقات پیش کیں اور معاشرے کو متاثر کیا ان تحریکوں نے بڑے بڑے نامور ادیب و شعرا پیدا کیے جن سے ہم آج بھی روشنی حاصل کر رہے ہیں۔
کوئی بھی نظریاتی تحریک چاہے وہ سیاسی ہو یا ادبی اس وقت تک زندہ اور فعال رہتی ہے جب تک وہ اپنے نظریات اور تخلیقات سے سماج کو متاثر کرتی ہے اگر وہ ایسا کرنا بند کردے تو تحریک زوال کا شکار ہو کر اپنا وجود کھو دیتی ہے۔ ادب کے ایک قاری کی حیثیت سے میں نے یہ بات محسوس کی ہے کہ ہمارا ادب گزشتہ کئی دہائیوں سے علمی بانجھ پن کا شکار ہے۔
اس وقت جو ادب تخلیق کیا جا رہا ہے وہ ہماری روایات اور سماج سے غیر متعلق ہے ایسے ادب کا کیا حاصل جو ہماری سوچ کے دھارے کو نہ بدل سکے اور نئے شعورکو عام نہ کرسکے۔ میرے نزدیک ادب کے زوال پذیر ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا ادب نظریاتی ادب نہیں رہا ہے، بلکہ ضروریاتی ادب میں تبدیل ہو گیا ہے، یعنی ادب برائے مفاد پرست بن گیا ہے۔
ہمارے بیشتر لکھنے والوں کی ادب سے کمٹمنٹ نہیں وہ سمجھوتے اور مصلحتوں سے کام لیتے ہیں، انھوں نے ادب کو لوگوں سے تعلقات استوار کرنے کا زینہ بنایا ہے۔ ہمارے بعض ادیب اور شعرا گروہ بندی کا شکار ہو کر شہرت اور ذاتی مفادات کے حصول میں سرگرداں اور مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں۔ بیشتر ادیب اور شعرا سیاسی جماعتوں کے ایلچی اور ترجمان بنے ہوئے ہیں وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر رہے ہیں کہ ادب سیاست کے پیچھے چلنے والی شے نہیں بلکہ یہ وہ مشعل ہے جو سیاست کے آگے چلتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نپولین نے کہا تھا کہ اگر روسو نہ ہوتا تو نپولین بھی نہ ہوتا۔ (یہ بات انقلاب فرانس کے حوالے سے کی تھی)۔ موجودہ زمانے میں مادیت ہی سب کچھ ہے کہ نظریے نے انسان کو حرص، حسد اور لالچ کا پجاری بنا دیا ہے، نئی نسل سے وہ پیمانے ہی چھین لیے ہیں جس کے ذریعے ہم تفریق کر سکیں کہ ہوس کیا ہے اور ضرورت کیا ہے اس طرز فکر کے نتیجے میں ظلم، استحصال جیسے مسائل میں اضافہ ہوا اور انسانی روح کو ایک ایسے اندھے کنوئیں میں دھکیل دیا ہے جہاں بے سکونی کے سوا کچھ نہیں۔ ایسے حالات میں ادیبوں پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کے اسباب پر غور کرکے ادبی تحریروں کے ذریعے اس کا تدارک کریں۔ ہمارے یہاں ادب کی زبان عام آدمی کی بول چال سے مختلف رہی ہے۔
ہمارے ادب پر خواص اور تعلیم یافتہ طبقے کے کلچر کے اثرات زیادہ غالب رہے ہیں ادب کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ عوام کے ساتھ انھی کی زبان میں انھی کے محاورے اور لب و لہجے میں ان کی ذہنی سطح کو سامنے رکھ کر ادب تخلیق کیا جائے۔ ادب میں کسی نظریے پر ایمان رکھنا بری بات نہیں لیکن جس نظریے پر آپ ایمان رکھتے ہیں اس نظریے کے خلاف زندگی گزارنا مکروہ عمل ہے ہمارے ادیبوں کے قول و فعل کے اس تضاد نے ہمارے ادب کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
میرے نزدیک کسی ادیب کا کسی تحریک سے وابستہ ہونا ضروری نہیں لیکن ادیب کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ زندگی کے بارے میں واضح نظریہ رکھتا ہو۔ اسے سماجی طور پر باشعور ہونا چاہیے اور کیونکہ ادب کا تعلق انسان سے ہے اس لیے ادیب کے قلم کو مذہبی، مسلکی، علاقائی، لسانی، نسلی ہر قسم کے تعصب سے پاک ہونا چاہیے۔ ادیبوں کو معاشرے کی آنکھ قرار دیا جاتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ادیب محرومی حالات کو جانچے پرکھے یہی عصری شعور کے حصول کا ذریعہ ہے۔
یاد رکھیے ادب ادیب سے پتہ کا پانی اور جگر کا خون کرنے کا مطالبہ بھی کرتا ہے اس کے بغیر کوئی ادیب ادبی فن پارہ تخلیق نہیں کرسکتا۔