سردی میں خارش کیوں ضروری ہے؟
سردیاں ہیں کہ جانے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ گرمیوں نے جب مت ماری ہوئی تھی تو بہت دعائیں اور منتیں مانگ کر اسے بلایا تھا۔ خیال تھا کہ لو برساتی دوپہروں سے جان چھوٹے گی، گلابی جاڑا آجائے گا، ٹھنڈی میٹھی دھوپ نکلے گی، کسی کھلی جگہ پر بیٹھ کر اس کی میٹھی میٹھی حرارت اپنے جسم میں اتاریں گے اور یوں وٹامن ڈی کی خرید پر جو پیسے خرچ ہوتے ہیں اس سے مونگ پھلی لیں گے اور اس کا ایک ایک چھلکا چسکے لے لے کر اتاریں گے۔ پھر اس چھلکے میں سے تین تین چار چار دانے نکلیں گے اور یوں یہ غریب نواز ڈرائی فروٹ کولیسٹرول میں بھی کمی کا باعث بنے گا۔ مونگ پھلی کے جو دانے اپنی شکل ہی سے خراب لگیں گے وہ محبت سے اپنے قریب بیٹھے کسی مسکین دوست کو پیش کریں گے کہ ان دنوں مہمان نوازی بھی مہمان کے اسٹیٹس کے مطابق ہی کی جاتی ہے۔ ایک فروٹ ہے جسے ملوک کہتے ہیں۔ یہ انگور کے دانے کے برابر ہوتا ہے۔ رنگت سیاہ ہوتی ہے اور اس میں سے گودا کم اور بیج زیادہ برآمد ہوتے ہیں۔ ہم جیسے لوگ اسے بھی ڈرائی فروٹ ہی میں شامل سمجھتے ہیں۔ جس طرح کوچوانوں نے اپنی گھوڑیوں کے نام کترینا کیف وغیرہ رکھے ہوتے ہیں، آپ ملوک کو بھی اسی کیٹیگری میں شامل کر کے جو نام چاہیں اسے دے دیں تاہم بدقسمتی سے اسے بھی ڈرائی فروٹ ہی قرار دیا جاتا ہے۔ سو سوچا تھا کہ سردیوں کی آمد پر ملوک میں سے اس کا گودا تلاش کریں گے کہ اس "تلاشی" کا بھی اپنا ہی مزہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ چونکہ میں گورے کالے کی تمیز کو شرفِ انسانیت کے منافی سمجھتا ہوں لہٰذا اس کالے ڈرائی فروٹ کی عزت افزائی بھی منظور تھی مگر تلاش بسیار کے باوجود یہ کسی خوانچے یا ریڑھی والے سے دستیاب نہ ہو سکا اور یوں اندازہ ہوا کہ ملوک کو اس کے اپنے بھائی بندوں نے بھی اپنی برادری سے خارج کر دیا ہے۔
اب آپ کو سردیوں کے انتظار کی ایک اور وجہ بھی بتاتا چلا جائوں، گرمیوں میں مسلسل سفید شلوار کرتے پہننے کی وجہ سے دوستوں نے میرا شمار بھی سفید پوشوں میں کرنا شروع کر دیا تھا۔ مجھے سفید پوش کہلانا منظور نہیں تھا کیونکہ میں ایک بار سفید پوشوں کی یہ تعریف اپنے کالم میں لکھ چکا تھا کہ سفید پوش وہ ہوتا ہے جو ماسی برکتے کے تندور سے کھانا کھا کر نکلتا ہے اور کسی فائیو اسٹار ہوٹل کے سامنے کھڑے ہو کر خلال کرتا نظر آتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اگر کبھی میرا "مفتا" کسی فائیو سٹار میں لگ جائے تو خلال میں باہر سڑک پر آ کر ہی کرتا ہوں اور اس وقت تک کرتا رہتا ہوں جب تک دوچار ملنے والے مجھے فائیو سٹار ہوٹل سے نکلتے اور باہر کھڑے ہو کر خلال کرتے نہ دیکھ لیں تاہم اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میرے جیسے معزز شخص پر خواہ مخواہ سفید پوشی کا ٹھپہ لگ جائے اور امارت کے بل بوتے پر بننے والے معززین کی نظروں سے خود کو گرا دیا جائے۔ بہرحال سردیوں میں میں سفید پوشی کا یہ دھبہ بھی اپنے دامن سے دھونا چاہتا تھا اور پوری شدت سے سرما کے انتظار کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ چنانچہ میں نے اپنے ماموں جن کا لاہور کے لنڈے بازار میں انگریزوں کے استعمال شدہ کپڑوں کا شاندار کاروبار ہے، سے فرمائش کی کہ وہ لندن سے میرے لئے کوئی اعلیٰ درجے کا سوٹ امپورٹ کریں چنانچہ ماموں نے ایک روز مجھے اطلاع دی کہ تازہ گانٹھ کھلی ہے آ کر اپنی پسند کا سوٹ لے جائو، سوٹ تو خاصا مہنگا تھا یہی کوئی تین چار سو روپے کا مگر ماموں نے مجھے گفٹ کر دیا اور بتایا کہ وہ سوٹ کے مالک اس انگریز کو ذاتی طور پر جانتے ہیں اس نے یہ سوٹ صرف ایک بار پہنا تھا اس کے بعد نہیں پہنا کیونکہ اسے کھرک (خارش) پڑ گئی تھی۔ اس لئے تم احتیاطاً یہ سوٹ ڈرائی کلین کرا لینا چنانچہ میں نے اپنے گھر کی واشنگ مشین میں یہ سوٹ ڈرائی کلین کیا اور سردیوں کا انتظار کرنے لگا۔ چلتے چلتے آپ کو ایک بات اور بتاتا جائوں کہ 1971ء میں امریکہ سے واپسی پر میں نے اپنے سارے پرانے کپڑے اس ادارے کو دان کر دیئے تھے جو بعد میں پسماندہ ممالک کے لنڈے بازاروں میں پہنچ جاتے ہیں تاہم احتیاطاً میں نے ایک کالم میں دوستوں کو خبردار کر دیا تھا کہ وہ کم از کم چھ مہینے تک لنڈے سے کوئی کپڑا نہ خریدیں کہ میں اپنے کپڑے پہچانتا ہوں۔
بہرحال میں نے آپ کو سردیوں کے انتظار کے حوالے سے بتا دیا تھا مگر ہوا یہ کہ دعائیں اور منتیں مانگ مانگ کر جس موسم سرما کی فرمائش اللہ تعالیٰ سے کی تھی اس نے اپنی شدت سے ہم سب کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ ہم سردیوں سے بچنے کے لئے جن رضائیوں سے لپٹے رہتے تھے وہ رضائیاں اپنے لئے رضائیوں کا مطالبہ کر رہی ہیں، جو ہیٹر ہم سردی کی شدت سے بچنے کے لئے آن رکھتے تھے وہ ہیٹر کہہ رہے ہیں کہ ہمیں سردی سے بچائو۔ میرے ماموں نے اپنے انگریز دوست سے جو سوٹ خصوصی طور پر میرے لئے منگوایا تھا اس میں چھید تو ایک آدھ ہی ہے مگر ہوا بہت دیتا ہے۔ تاہم اس کا یہ فائدہ ضرور ہے کہ میرا ہاتھ جسم کے مختلف حصوں کو کھجلانے کے لئے مسلسل برسر عمل رہتا ہے اور یوں اس ایکسر سائز سے جسم میں حرارت سی محسوس ہونے لگتی ہے بلکہ میں نے دو ایک بار تھرمامیٹر لگایا تو پتہ چلا کہ اس روز سے مسلسل حرارت رہنے لگی ہے جس روز سے یہ سوٹ میں نے پہننا شروع کیا ہے۔
میں اس قصے کو اب مزید طول نہیں دینا چاہتا بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ جب کوئی موسم تکلیف دینے لگے تو موسم کے خوشگوار ہونے کی تو ضرور خواہش کریں مگر اس کی جگہ کسی اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ موسم کی تمنا نہ کریں۔ اب دیکھ لیں یہ موسم سرما جنرل ضیاء الحق کے 90 دنوں کی طرح آیا تھا مگر جان چھوڑنے کا نام نہیں لے رہا۔ ہماری تاریخ یہی بتاتی ہے اور ہمیں تاریخ سے سبق ضرور سیکھنا چاہئے۔