پطرس بخاری کے بعد راقم کی سائیکل (2)
اگلے روز مجھے ایک بہت ضروری کام کے لئے باہر جانا تھا مگر میں نے محسوس کیا کہ گزشتہ روز کی تھکن سے سائیکل کا جسم چور چور ہو رہا ہے چنانچہ میں نے پہلے کپڑے سے اس کے سارے جسم کی مالش کی اور پھر اسے ایک دن آرام کے لئے گھر چھوڑ کر پیدل چل پڑا اور اہل خانہ کو ہدایت کی کہ وہ اس پری وش کے آرام میں خلل نہ ڈالیں اور بچوں کو اس کی پہنچ سے دور رکھیں کیونکہ مجھے خدشہ تھا کہ محلے کے بچے اسے تنگ کریں گے۔ اس خدشے کی وجہ یہ تھی کہ جس روز میں سائیکل کو لے کر گھر آیا تھا بچے اس انمول سواری کو بہت حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ وہ اس سواری کی نوعیت کے حوالے سے آپس میں شرطیں لگا رہے تھے۔ ان میں سے ایک بچہ بضد تھا کہ یہ چاند گاڑی ہے اور مجھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ بچہ یہ شرط جیت گیا تھا۔ بہرحال میں شام کو گھر لوٹا تو میں نے دیکھا کہ سائیکل کا سانس پھولا ہوا تھا۔ معلوم کیا تو پتہ چلا کہ بچے سارا دن اس کے ساتھ چھیڑخانی کرتے رہے ہیں۔ میں بچوں پر ناراض تھا اور گھر والے سائیکل سے نالاں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ بچوں کی چھیڑ چھاڑ کے دوران اس عفیفہ نے اتنا واویلا کیا کہ اس کی مسلسل چوں چاں سے گھر والے قیلولہ نہ کر سکے۔ یہ ایک ناخوشگوار واقعہ تھا مگر میں صبر کے علاوہ کیا کر سکتا تھا۔
تب میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنے اس جان جگر کو ہر دم اپنے ساتھ رکھا کروں گا مگر ہر روز کوئی نہ کوئی انوکھا واقعہ رونما ہو جاتا مثلاً ایک دن گھر سے باہر قدم رکھتے ہی میں نے محسوس کیا کہ اس کے دونوں ٹائروں میں ہوا نہیں ہے۔ میں ان میں ہوا بھرانے کے لئے سائیکلوں کی ایک دکان پر لے گیا مگر اس بدبخت دکاندار نے معائنے کے بعد بتایا کہ اس کے دونوں ٹائروں کے تمام پنکچر اکھڑے ہوئے ہیں اور یوں تقریباً 19پنکچر دوبارہ لگوانا پڑیں گے، ان کا خرچہ لگ بھگ سائیکل کی قیمت کے برابر تھا۔ اسی طرح ایک روز بھولا ڈنگر میرے ساتھ اس کے کیریئر پر بیٹھ گیا اور وہ ابھی تک اسپتال میں ہے کیونکہ اس کے بیٹھتے ہی کیریئر بھی بیٹھ گیا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایک دن چلتے چلتے اس کا ہینڈل خود بخود اس گلی کی طرف مڑ گیا جدھر کا رخ کرنے سے ایک مہ پارہ کے بھائیوں نے مجھے سختی سے منع کیا تھا۔ سو اس کے بعد وہی ہوا جو ہونا تھا یعنی ابھی تک ڈبل اینٹ گرم کر کے اس سے اپنے دکھتے بدن کو سینکنے میں مشغول ہوں۔ میں یہ سب کچھ برداشت کر رہا تھا مگر ایک روز میں اس فیصلے پر پہنچا کہ اس کے وصال سے ہجر بہتر ہے ہوا یوں کہ گھر سے نکلتے ہی ایک جگہ معمولی سی چڑھائی آئی مجھے ظاہر ہے اس کے لئے اپنی اضافی طاقت استعمال کرنا تھی چنانچہ میں نے ابھی دو تین بھرپور پیڈل ہی مارے تھے کہ میں نے محسوس کیا کہ پیڈل کام نہیں کر رہے وہ بس گھومتے جا رہے ہیں مگر سفر طے نہیں ہو رہا۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ یہ صورتحال اس وقت پیش آتی ہے جب سائیکل کے کتے فیل ہو جاتے ہیں۔ سو سائیکل کے کتے فیل ہو گئے تھے اور اب وہ چڑھائی چڑھنے کی بجائے سرپٹ پیچھے کو بھاگتی جا رہی تھی۔
اسی روز میں نے سوچا کہ کہیں ہماری سیاست کے کتے جان بوجھ کر تو فیل نہیں کئے جاتے کیونکہ ہم لوگ جب بھی ایک قدم آگے کی طرف بڑھاتے ہیں ہمیں دو قدم پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ یہ کون ہے جو ہمیں پیچھے لے جانے پر تلا ہوا ہے؟ اور اس کے لئے ہر دفعہ ہمارے کتے فیل کر دیتا ہے؟