کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے؟
نریندر مودی اور ٹرمپ نے امریکہ میں ایک جلسے سے مشترکہ خطاب کیا، کوئی پچاس ہزار کے قریب انڈین تھے جو مودی اور ٹرمپ کی باتیں سن کر نہال ہو رہے تھے جو پاکستان کی تباہی (ان کے منہ میں خاک) کے حوالے سے تھیں، ڈونلڈ ٹرمپ ایک بازاری سا شخص ہے جو امریکہ کا صدر بننے سے پہلے اور بعد میں بھی اپنی گھٹیا گفتگوئوں اور حرکتوں پر کبھی شرمندہ نہیں ہوا اور کمال ہے امریکیوں کا اگر انہوں نے واقعی اسے صدر منتخب کیا ہے۔ دوسری طرف نریندر مودی بدنام ترین مسلم دشمن ہے، اس سفاک شخص کے ہاتھ لاکھوں مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور بعض مسلمان ملک اس کا خون آلود ہاتھ تھامے اس کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔ جو کچھ اس جلسے میں دکھائی دیا اور جو کچھ سنا، اس کے بعد ٹرمپ سے عمران خان کی ملاقات کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا تھا۔ ٹرمپ عمران خان سے ملاقات میں کہتا ہے کہ میں مودی سے کشمیر کے مسئلے پر بات کروں گا۔ یہ بات ایک رلا دینے والے لطیفے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ اسی طرح ہمیں سفارتی محاذ پر جس طرح پے در پے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور پاکستان کی جس طرح ذلت ہوئی ہے اس کے بعد کم از کم مجھے زندہ رہنے میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔
گزشتہ روز آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر لاہور میں تھے جہاں مجیب الرحمٰن شامی نے اپنی رہائش گاہ پر ان کے اعزاز میں ایک عشایئے کا اہتمام کیا تھا۔ یہاں لاہور میں موجود سینئر اخبار نویس بھی موجود تھے۔ راجہ صاحب ایک دبنگ آدمی ہیں اور کشمیریوں کے دکھ کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں جہاں مستقبل کے بہت سے خطرات کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا وہاں وہ گفتگو میں حالات کی بہتری کی امید بھی دلاتے رہے تاہم میرے نزدیک یہ طفل تسلیاں ہیں جو ایک مجبور شخص جس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، ہمیں مایوسی سے بچنے کے لئے دے رہا تھا۔ میں خود بھی ساری عمر مایوسی کے خلاف لکھتا رہا ہوں کہ میرے نزدیک مایوس قوم وقت سے پہلے جنگ ہار جاتی ہے۔ راجہ صاحب بھی یہی کہتے رہے۔ مجھے ان کی باتوں میں خلوص اور درد دونوں نظر آئے مگر یہ پہلا موقع ہے کہ میرے اندر مایوسی کی عفریت جنم لے رہی ہے۔ مجھے کشمیر ہی نہیں (میرے منہ میں خاک) پاکستان کی سرحدوں پر بھی خطرات کے بادل منڈلاتے نظر آ رہے ہیں۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اپنی ساری امیدیں خاک میں ملا کر آنے والے ممکنہ خطرات کے لئے خود کو تیار کر لیں یا دانشوروں کا ایک تھنک ٹینک موجودہ صورتحال کے پس منظر میں اپنی تجاویز پیش کرے اور یہ تجاویز حکومت کے بڑوں ہی کو نہیں، پاک فوج کے بڑوں کے سامنے بھی رکھی جائیں۔ اس تھنک ٹینک میں حکومت اپوزیشن، پارلیمنٹ، فوج، فارن آفس اور عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے والے سینئر نڈر دانشوروں کو بھی شریک کیا جائے جس میں سچ مچ کے صحافی بھی موجود ہوں۔ اس کے علاوہ فوری طور پر پکڑ دھکڑ کا سلسلہ ختم کرنا چاہئے، انویسٹرز میں خوف و ہراس اور مہنگائی کے عفریت سے ہی عوام کو نجات دلانے کے راستے تلاش کئے جائیں تاکہ پاکستانی عوام اپنے مسائل ہی میں گم سم نہ رہیں بلکہ ملک کے مستقبل کے بارے میں بھی یکسو ہو سکیں۔
ایک بات جو کچھ لوگوں کو ناگوار لگے گی لیکن اگر ہم نے قوم کو پوری یکسوئی دینا ہے تو ان کے رہنمائوں کو بھی خواہ عارضی طور پر، مگر رہا کیا جائے کہ ان کے کروڑوں ووٹر اس حوالے سے تقسیم در تقسیم ہو چکے ہیں۔ اس میں کیا خرابی ہے اگر عمران خان، نواز شریف، آصف علی زرداری ایک بڑے جلسے میں انڈیا سمیت پوری دنیا کو یہ پیغام دیں کہ ہمارے اختلافات اپنی جگہ مگر بھارت کو اس کی خباثت اور ذلالت کا سبق سکھانے کے لئے ہم سب ایک ہیں اور ہماری آواز میں ہمارے کروڑوں ووٹروں کی آواز بھی شامل ہے۔ مجھے لگتا ہے میں یہ سب باتیں خواب کے عالم میں کر رہا ہوں۔ خود مجھے یہ باتیں مجذوب کی بڑ لگ رہی ہیں۔ مگر بھارت اور اس کے ہم نوائوں کے لئے ہمارے پاس یہی قوت باقی رہ گئی ہے۔ ہمیں اس وقت کا انتظار نہیں کرنا چاہئے جب مودی اور اس کے یاروں کا پنجہ استبداد کشمیریوں کی نسل کشی کے ساتھ پاکستان اور پاکستانی عوام کو بھی اپنی غلیظ نگاہی کا نشانہ بنانے پر تُل کیا جائے۔ جو کرنا ہے ابھی کر لو۔ اب سوچنے کے لئے وقت نہیں رہا۔ ہماری سست روی، ہماری بے طاقتی، ہماری بزدلی اور اس کے ساتھ مظلوم و مقہور کشمیریوں کی بددعائیں ہمیں لے بیٹھیں۔ خدا کے لئے اب "کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے" کے خوف سے نکلیں، ورنہ دشمن کے بجائے یہ خوف ہی ہمیں مار ڈالے گا۔