Saturday, 21 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Molana Ubaidullah Sindhi

Molana Ubaidullah Sindhi

مولانا عبیداللہ سندھی

مولانا اشرف علی تھانوی عبیداللہ سندھی کو نئے خیال کا مولوی کہا کرتے تھے۔ نئے خیال کے مولوی وہ تھے بھی۔ کھتری کے گھر پیدا ہونے والا بوٹا سنگھ عبید اللہ سندھی اور پھر امام انقلاب بن جائے تو وہ کچھ نئے خیال کا ہی مولوی ہوگا۔ مگر یہ مولوی بہت باغی مزاج تھا، اپنے آبائی مذہب سکھ مت سے بغاوت کی تو مسلمان ہوگیا وہاں سے دیوبند پہنچا، امام الہند مولوی محمود الحسن کا چہیتا شاگرد بنا، تحریک ریشمی رومال کا سرگرم رکن بنا تو ملک چھوڑ کر افغانستان جا پہنچا، بغاوت کا مادہ اتنا تھا کہ افغانستان کے امیر اور زار روس کو ساتھ ملا کر برطانیہ پر حملہ کرنے کے خواب دیکھنے لگا۔

افغانستان راس نہ آیا تو روس جا پہنچا، سیالکوٹ کا بوٹا سنگھ جو اب مولوی عبیداللہ بن چکا تھا اس نے روس میں زار روس کا تختہ اپنی آنکھوں سے الٹتا دیکھا، روس کو پیغمبر بے کتاب مارکس کا حلقہ بگوش ہوتے دیکھا، انقلابی مولوی کی من کی دنیا میں اشتراکی انقلاب نے تہلکہ مچا دیا تھا، مولانا مودودی نے، اقبال نے، پرویز نے، قاسم نانوتوی نے ان سے اشتراکیت کو کتابوں میں پڑھا تھا مولانا سندھی نے اپنی آنکھوں سے برپا ہوتے دیکھا۔

روس سے اگلی منزل ترکی کی تھی، ترکی کی خلافت کی کشتی میں سوراخ ہو رہے تھے اور وہ سیکولر ازم کے بپھرے دریا پر ہچکولے کھا رہا تھا۔ ترکی میں مولانا سندھی نے آزاد انڈیا کا آئین مرتب کیا جو خاصا اشتراکی اور سیکولر تھا۔ جب مولانا سندھی حجاز میں دس سال گزارنے کے بعد دور ہجرت کو تیاگ کر واپس ہندوستان لوٹے تو وہ پرانے انقلابی سندھی بن کر نہ لوٹے بلکہ مفکر مولانا عبیداللہ سندھی بن کر لوٹے۔

اس وقت کے برصغیر کے علماء میں جتنا exposure مولانا سندھی کا تھا اس کے آس پاس بھی کوئی نہیں پھٹکتا تھا۔ افعانستان سے روس، مصر ترکی اور حجاز کی خاک چھان کر آنے والے کو دیوبند کی ڈیرھ اینٹ مسجد کے امام کہاں ہضم کر پاتے اس لیے جونہی عبیداللہ سندھی نے اپنی فکر کا پرچار شروع کیا تو سب سے پہلے ان کے اپنے ہی ان کے خلاف ہو گئے۔ دیوبند کا کوئی بزرگ ایسا نہ بچا جس نے مولانا سندھی سے اظہار برات نہ کیا ہو۔ بنیادی طور پر وہ سب ان سے خائف تھے کیونکہ مفکر عبیداللہ سندھی کے نظریات میں اتنی طاقت تھی کہ وہ اکابر کی بنائی گئی عمارت کو مسمار کر دے۔

اشرف علی تھانوی مولانا سندھی پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ "مولوی سندھی ہمیں کہتا ہے کہ ہمیں ہندؤوں سے مل جانا چاہئے، میں نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ہندو تو انگریز وائسرائے پر بم پھینکتے ہیں اور ہمارا مذہب تو بدعہدی کی اجازت نہیں دیتا ہم کیسے ان کے ساتھ مل سکتے ہیں"۔

یہ تھی حکیم الامت کی سوچ کہ انہیں ہندؤں سے ملنے پر اس لیے اعتراض تھا کی ایک انقلابی ہندو نے وائسرائے پر بم دے مارا تھا۔ حکیم الامت کا یہ بیان ان کے منہ پر طمانچہ ہے جو اپنے اکابرین کو جنگ آزادی کا مجاھد کیش کرواتے نہیں تھکتے۔ بعدازاں تھانوی صاحب نے مولانا سندھی کی تفسیر بالرائے پر تنقیدی رسالہ التقصیر فی التفسیر کے نام سے لکھا۔

مولانا عبیداللہ سندھی قرآن کی تفسیر سیاست اور موجودہ حالاتِ کے تناظر میں کرتے تھے جو اس وقت کے علما کو ہضم نہ ہوتا۔ مفسر قرآن مولانا احمد علی لاہوری سندھی صاحب کے چہیتے شاگرد تھے، یہ وہ شاگرد تھے جن کے عقد میں سندھی صاحب نے اپنی بیٹی دی، اپنے مدرسہ نظارہ المعارف القرآنیہ کا مہتم بنایا، علم التفسیر کے سارے گر دئیے وہ شاگرد بھی مولانا کے نظریات کو سہہ نہ پایا اور اپنے گرو سے اعلان برات ان الفاظ میں کیا۔

"مولانا سندھی کے قبل از ہجرت کے جو عقائد تھے وہ خالص قرآن و سنّت پر مبنی تھے، مگر ہجرت کے بعد کو ان کے عقائد میں تبدیلی آئی ہے میں اس سے ہرگز متفق نہیں ہوں"۔ (بحوالہ ماہنامہ معارف اعظم گڑھ 1965)۔

مولانا عبیداللہ سندھی شاہ ولی اللہ کو اپنا راہبر تسلیم کرتے مگر تھے وہ شاہ صاحب سے بھی آگے کی چیز۔ مولانا شبیر احمد عثمانی بھی ٹوکے لے کر مولانا سندھی کے پیچھے پڑ گئے تھے۔ ایک جگہ مولانا سندھی پر طنز کرتے ہوئے لکھتے ہیں"امام شاہ ولی اللہ کی فکر کا ذبیحہ کیا جارہا ہے اور یہ (مولانا سندھی) ایک فتنہ ہے۔ (بحوالہ انوار عثمانی صفحہِ 115)۔

مولانا کا ذہن کافی زرخیز تھا، وہ شاہ ولی اللہ کی فکرکے خود کو آمین کہتے اور فکر ولی للہی کی تبلیغ کو مشن سمجھتے، مولانا ماخذ دین صرف قرآن کو مانتے حدیث کے حوالے سے ان کی رائے ڈھیلی ڈھالی تھی شاہ ولی اللہ کی طرح قرآن کے بعد صیحح بخآری کے بجائے موطا امام کو فوقیت دیتے۔

صیحح بخآری کے متعلق کہتے "امام بخآری نے چھ لاکھ احادیث جمع کی ہیں اور ان میں چھانٹی کرکے چھ ہزار صیحح بخآری میں مرتب کیں اگر صحیح بخآری اتنی قابل اعتبار ہوتی تو امام بخآری کو چھ چھ لاکھ احادیث چھانٹنے کی ضرورت کیوں پیش آتی۔ (بحوالہ شاہ ولی اللہ اور انکا فلسفہ صفحہ 116)

ایک دفعہ مولانا سندھی سے پوچھا گیا کہ کیا احادیث کا انکار کرسکتے ہیں تو مولانا نے جواب دیا کہ صحیح بخآری میں جو قابل اعتراض احادیث ہیں ان کا میں خود منکر ہوں اسی لئے مولانا سندھی نے کہا تھا کہ میں ایک نومسلم کو صحیح بخآری نہیں پڑھا سکتا اور اس کی وجہ میں مجمعے میں نہیں بتا سکتا۔

مولانا سندھی تصوف کے بڑے معتقد تھے وہ تصوف کے تہذیبی پہلو کو بہت باریکی سے سمجھتے اور برملا اظہار کرتے کہ اسلامی تصوف ویدانت سے نکلا ہے، یہ تصوف ہی تھا جس نے ہندوؤں کو مسلمان ہونے کی طرف مائل کیا۔ مولانا تصوف کی بابت کہتے کہ تصوف کا جذبہ اسلام میں موجود ہے جسے قرآن احسان کی کیفیت سے تعبیر کرتا ہے مگر علم التصوف کی بنیاد بعد میں پڑی۔

اپنی کتاب شاہ ولی اللہ اور انکا فلسفہ میں ایک بہت ہی اہم پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہیں"آریائی تہذیب کے دو پہلو تھے ایک کی بنیاد دلیل پر تھی اور دوسرے کی بنیاد وجدان پر، اسلام کے بعد دلیل کی شکل علم الکلام نے اختیار کر لی اور موخر الذکر تصوف کی شکل میں نمودار ہوا"۔

کیا ہی خوبصورت جملہ ہے یہ۔ میں نے جب یہ پڑھا تھا ایک دفعہ چونک گیا تھا۔

مولانا سندھی اکبر کے بڑے مداح تھے، اکبر کے دین الٰہی کو وحدت الوجود کے سیاسی اظہار کی ایک کڑی مانتے، مولانا کے نزدیک اکبر کی سیکولر پالیسیوں نے ہی برصغیر کی مسلم اقلیت کو ہی ہندو اکثریت پر مضبوط حاکم بنائے رکھا اسی کے ساتھ ساتھ مولانا سندھی اورنگزیب عالمگیر کی ہندو دشمن پالیسیوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے۔

مولانا بین الاقوامیت پر زور دیتے، بین الاقوامیت سے مراد فلسفہ امہ نہیں بلکہ اس سے مراد وحدت الادیان ہے، وحدت الادیان کی مرکزی کڑی مولانا کے نزدیک وحدت الوجود تھا۔

مولانا سندھی وطنیت کو اقبال کی طرح مذھب کا کفن نہیں سمجھتے تھے بلکہ کہتے کہ اسلام کی بین الاقوامیت میں وطن کو اپنا الگ تشخص برقرار رکھنے کی گنجائش ہے، اسی لئے مولانا اقبال کی طرح کاشغر کی خاک اور نیل کے ساحل کے کنارے خجل خوار ہونے کے بجائے پہلے ہندوستانی اور پھر مسلمان رہے۔

مولانا سندھی کے نزدیک پہلے دو خلفا کے دور تک اسلام میں بین الاقوامیت تھی مگر حضرت عمر کی ایک ایرانی کے ہاتھوں شھادت کے بعد صحابہ میں ایران کے خلاف تحریک چل پڑی اور ان میں عربیت آگئی تھی، اور اس کے بعد کی خلافتی سیاست عربی نیشنلزم کے گرد گھومتی ہے۔ (مولانا عبیداللہ سندھی از محمد سرور ص 222)

اسی کتاب کے صفحہ 232 میں مولانا وہ بات کہتے ہیں جس کی جرات شاید ہی اس وقت کا کوئی اور مولوی کرسکتا ہو۔ مولانا کہتے ہیں ہمارے بڑے بڑے علماء و فضلاء جو کہتے ہیں خلاف راشدہ کے نظام کو سب سے افضل مان لیا جائے تو پھر وہ افضل نظام صرف تیس سال کیوں چل سکا جس کے بھی آخری دس سال خانی جنگی کے نظر ہوگئے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ اتنی بڑی سلطنت کے خلیفہ کو چند باغی اس کے دارالحکومت میں شھید کر دیں، خرابی کہیں اندر ہی تھی۔

اس طرح کی بولڈ باتیں کرنے والا مولوی دیوبند کے دو رکعت کے اماموں کو کہاں ہضم ہونے والا تھا۔ ننگوں کی بستی میں کپڑے پہننے والا ہی ننگا لگتا ہے یہی حال مولانا سندھی کا ہؤا۔ مولانا حسین احمد مدنی نے لکھا "مولانا سندھی اکابر کے نصب العین سے ہٹ گئے ہیں اور ان کا نصب العین آزادی ہند ہوگیا ہے، اسی کے ساتھ ساتھ ہجرت کے مصائب نے ان کا دماغی توازن خراب کر دیا ہے"۔ (اخبار بجنور)

اب اندازہ لگا لیں مولانا حسین احمد مدنی جیسا بندہ یہ کہہ رہا ہے مولانا کا ذہنی توازن خراب ہوگیا ہے تبھی وہ اس طرح کے نظریات کا پرچار کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک آزادی ہند سے بڑا مشن اکابر کی پیروی تھی۔ ابھی تو میں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کونسا دیوبند کا شمس العلما تھا جو مولانا سندھی کی جاسوسی کرتا تھا انگریز کے کہنے پر اور تحریک ریشمی رومال کے سرخیل مولانا محمودالحسن کو گرفتار کروانے میں بھی اسی دیوبند کے شمس العلما کا ہاتھ تھا۔ تو بات مولانا سندھی کی ہو رہی تھی جسے اپنی ساری جدوجھد کا صلہ اس جملے کی صورت میں ملا۔

"آخری عمر میں مولانا کا دماغ خراب ہوگیا تھا"۔

Check Also

Europe Aur America Ka Munafqana Khel

By Asif Masood