Jindi
جنڈی
قصبے میں مشہور تھا کہ جنڈی پر جن ہیں۔ لہٰذا کوئی بھی اس درخت کے نیچے نہ جاتا نہ ہی اس کے سائے میں کھڑا ہوتا۔ کرکٹ کھیلتے ہوئے جب چھکا لگتا اور گیند جنڈی سے جا ٹکراتی تو نہ اُٹھائی جاتی۔ کہا جاتا کہ رات کو درخت کے اوپر کچھ عجیب وغریب روشنیاں نظر آتی ہیں۔ آس پاس کے گھروں میں رہنے والوں کو یہاں سے رات کو کسی کے رونے اور دوڑنے کی آوازیں بھی آتیں۔ ایسے لگتا جیسے کوئی گھنگرو باندھ کر قبرستان میں دوڑ رہا ہے لیکن باہر نکل کر دیکھنے کی کسی کو ہمت نہ ہوتی۔
ایک دفعہ گرمیوں کی چھٹیوں میں دوپہر کے وقت ہم تین دوست گھر والوں کو چکمہ دے کر دریائے سندھ میں نہانے چلے گئے جس کے کنارے ہمارا قصبہ کندیاں واقع ہے۔ راستے میں ہی قبرستان پڑتا تھا جہاں جنڈی کا درخت تھا۔ جون کی تپتی دوپہر تھی اور ہر طرف ہُو کا عالم تھا۔ انسان و حیوان درختوں اور چھپروں کے سائے میں دُبکے ہوئے تھے۔ دور دور تک کسی ذی روح کا کوئی وجود نہ تھا۔
ہم گپیں لگاتے اور اٹھکیلیاں کرتے جیسے ہی قبرستان سے گزرنے لگے تو دور سے جنڈی کے اوپر ایک شخص بیٹھا نظر آیا۔ اتنی تپتی دوپہر میں قصبے کے کسی شخص کا جنڈی کے اوپر چڑھنا سمجھ سے بالاتر تھا۔ تاہم جیسے ہی اس شخص نے ہماری طرف دیکھا تو اس کی نہایت لمبی ناک نے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچ لی۔ ہم تیزی سے دوڑ کر واپس گھر جانا چاہتے تھے لیکن زمین نے ہمارے پاؤں پکڑ لیے تھے۔ ہم پتھر بن چکے تھے۔
سخت دوپہر میں ہم تپتی زمین پر ننگے پاؤں کھڑے کانپ رہے تھے اور شور مچا رہے تھے اور دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ ہمارا شور سن کر پاس کے گھر سے کچھ لوگ پہنچ گئے جنہوں نے ہمیں دو دو ہاتھ جڑے اور پکڑ کر گھر لے آئے۔ اتنی دیر میں جنڈی پر موجود شخص غائب ہو چکا تھا۔
سوسال سے پرانے جنڈی کے اس درخت سے نہ جانے قصبے اور کتنے لوگوں کی یادیں وابستہ ہوں گی۔ کتنے لوگ تھے جو اس کے پاس جانے سے ڈرتے ڈرتے اس کے نیچے ہمیشہ کے لئے جاکر سوئے ہیں کیونکہ قصبے کے قبرستان کی گنجائش بھی کم ہوتی گئی۔ تاہم کئی پراسرار داستانوں کا امین یہ درخت ابھی تک اپنی جگہ پر موجود ہے۔ آج والدِ محترم کی قبر سے واپسی پر لاشعوری طور پر جنڈی کے درخت سے بچتے ہوئے دور سے گزر رہا تھا تو اس کو عکس بند کرلیا۔