1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Bashir Warraich
  4. Krishan Chander Ka Novel Aur Aaj Ke Halaat

Krishan Chander Ka Novel Aur Aaj Ke Halaat

کرشن چندر کا ناول اور آج کے حالات

یہ واقعہ مجھے ایک دکاندار نے تین دن پہلے سنایا، اس واقعے کی تپش مجھے اب تک محسوس ہورہی ہے، پہلے آپ واقعہ سن لیں۔

دکان میں بہت زیادہ رش نہیں تھا، صرف دو چار گاہک ہی تھے، دو مرد ایک بوڑھی اماں اور اس کی پوتی، اور ایک عورت جو سب سے پیچھے ایک طرف ہو کر کھڑی تھی، دکاندار کے ہاتھ تیزی سے چل رہے تھے، تجربہ کار دکاندار نے تین سے چار منٹ میں مرد گاہکوں، بوڑھی مائی اور اس کی پوتی کو فارغ کیا، اور پیچھے کھڑی خاتون کی طرف دیکھا، گویا دکاندار کی آنکھیں پوچھ رہی ہوں "آپ کو کیا چاہیے"۔

یہ کوئی بہت بڑی دکان نہیں تھی، بس محلے سے متصل چوڑی سڑک پر ہونے اور کافی پرانی ہونے کی وجہ سے محلے بھر میں مشہور تھی، دکاندار بھی اپنے ابا کے ساتھ کام کرتے کرتے جوان ہوا تھا، ابا کی وفات کے بعد پوری دکان اور گھر کی ذمہ داری اس پر آن پڑی تھی، چونکہ پڑھا لکھا تھا، تجربہ کار، ایماندار اور خوش گفتار تھا، اسی لیے محلے والے اسے کبھی کبھار کوئی مشورہ، کوئی دل کی بات، کوئی امانت، حتیٰ کہ کوئی پارسل یا خط بھی منگانا ہو تو اسی کا پتہ لکھوادیتے تھے۔

بہرحال، پیچھے کھڑی عورت دکاندار کی توجہ پا کر چند لمحے تو اپنی جگہ سے نہ ہلی، ایسا لگتا تھا جیسے اس کے پاؤں لوہے کی میخوں سے زمین میں ٹھونک دیے گئے ہوں، دکاندار کے دوسری، تیسری دفعہ متوجہ ہونے پر عورت آگے آئی، منہ سے فیس ماسک پرے کیا، دکاندار حیران ہوگیا، "یہ تو اس محلے کے پرانے رہنے والے مرزا صاحب کی بہو ہے"، مرزا صاحب اس محلے کے کھاتے پیتے لوگوں میں شمار ہوتے تھے، ابھی چند ماہ قبل ہی تو ان کا انتقال ہوا تھا۔

"جی فرمائیے"، عورت کے شوکیس کے قریب آنے پر دکاندار نے انتہائی ملائمت سے پوچھا، "بھائی آپ مجھے جانتے ہیں "، عورت کی آواز میں شرمندگی، شرم، ضرورت اور دھیمے پن کا امتزاج تھا، ایسا لگتا تھا جیسے عورت کسی تیسرے فرد حتیٰ کہ اپنے فرشتوں سے بھی بات چھپانا چاہتی ہو، زیرک دکان دار نے فوراً جواب دیا، "جی ہاں آپ ہمارے پرانے کسٹمر مرزا صاحب کی بہو ہیں، آپ کے شوہر کا نام راحیل مرزا ہے"، "میں آج آپ کی دکان پر سامان خریدنے نہیں آئی، گھر میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں رہی، سمجھیں سب کچھ ختم ہو گیا"، آخری جملہ ادا کرتے کرتے خاتون کی آنکھوں سے نمکین پانی کے دو قطرے نکلے اور اس کے رخساروں پر چلنے لگے۔

دکاندار کے پیروں تلے زمین نکل گئی، وہ دو جملوں میں پوری کہانی سمجھ چکا تھا، "ہم سے آپ کیا چاہتی ہیں، اگر ضرورت کا سامان چاہیے تو لے جائیں، پیسے جب ہوں گے دے دیجئے گا، ہم کبھی تقاضہ نہیں کریں گے۔

"لیکن بھائی میں مستقل حل چاہتی ہوں "، عورت نے فوراً جواب دیا، دکاندار نے چند لمحے سوچنے کے بعد کہا، ٹھیک ہے آپ روزانہ سو چپاتیاں پکا کر بچے کے ہاتھ بھجوادیا کریں، ہم انہیں بیچ کر پیسے آپ کو بھجوادیا کریں گے"، عورت یہ سنتے ہی خوشی سے چمک اٹھی، فوراً اثبات میں سر ہلایا، اور ٹھیک دو گھنٹے بعد اس کا بڑا بیٹا چپاتیاں سر پر اٹھائے دوکان میں داخل ہوا، دکاندار کو سلام کیا، چپاتیاں رکھیں اور چپ چاپ گھر واپسی کے لیے مڑ گیا، شاید گھروں پر جب مصیبت ٹوٹتی ہے تو اس کا سب سے پہلا وار بچوں کی چہکار پر پڑتا ہے۔

بہر حال، دکاندار روزانہ اس مصیبت زدہ گھرانے کی مدد اسی طرح کرنے لگا کہ اس کی عزت نفس بھی مجروح نہیں ہوئی اور کسی کے گھر کے کپڑے بھی بیچ چوک دھلنے سے بچ گئے۔

اس واقعے سے مجھے دو سبق حاصل ہوئے، پہلا حالات خطرناک سطح کو عبور کر چکے ہیں، دوسرا معاشرے میں اگر برائی موجود ہے تو اچھائی بھی ختم نہیں ہوئی۔

حالات کی سنگینی کا عالم یہ ہے کہ گھروں کے گھر کھانے پینے کی چیزوں کو پورا نہیں کر پا رہے، کھانے پینے کی بنیادی چیزیں آٹا، چینی، گھی، دالیں یا بجلی گیس عام آدمی سے اوپر کے لوگوں کی پہنچ سے بھی دور ہوتے جا رہے ہیں۔ صورتحال اتنی خراب ہے کہ لوگ جو تے، کپڑے چھوڑ کر آٹے دال کے بھاؤ کو حیرت سے دیکھ رہے ہیں۔

اس مشکل صورتحال میں چند ضروری کام اور احتیاطیں ضرور کرنی پڑیں گی۔

* غیر ضروری گھومنا پھرنا، سیر و تفریح سے گریز کریں، اندرون ملک وزٹ کا اگر پروگرام ہو تو اس پر نظر ثانی کرلیں اور ان پیسوں کو سنبھال کر رکھیں۔

* ایسی تمام چیزیں جن کے بغیر گزارا ہو سکتا ہے، انہیں پہلی فرصت میں اپنی چیک لسٹ سے خارج کردیں۔

* گھریلو اشیاء مثلاً فریج، ٹی وی، ایل ای ڈی، اے سی وغیرہ کو بدلنے کا ارادہ فی الحال ملتوی کر دیں، ابھی پرانی چیزوں سے ہی گذارا کریں، ملکی حالات ٹھیک ہوں گے تو یہ چیزیں پھر بھی تبدیل کی جا سکتی ہیں، لیکن اس صورت حال میں پیسے ان چیزوں کو تبدیل کرنے میں ہرگز خرچ نہ کریں۔

* شہر کے اندر بھی دوستوں، رشتہ داروں کے گھر بمعہ فیملی بلاوجہ جانے سے گریز کریں، اس سے آپ اور میزبان دونوں زیربار ہو جائیں گے۔

* بلاوجہ کپڑے، جوتے، پرس اور ایسی چیزیں ہرگز ہرگز نہ خریدیں، آج کل ہر متوسط شخص کے پاس کپڑوں کے کئی جوڑے ہوتے ہیں، اس لئے عید پر بھی نئے کپڑوں کے بغیر اگر گذارہ ہوسکے تو کرلیں۔

* جن گھروں میں لان ہوں وہ سبزیاں اگانے کی کوشش کریں، چھوٹے گھروں والے گملوں میں سبزیاں اگا کر استعمال کریں، ان کو اگانے کے طریقے انٹرنیٹ پر بڑی آسانی سے مل جاتے ہیں۔

* اگر گھر میں گنجائش ہو تو دو چار مرغیاں بھی پال لیں، کیونکہ اس وقت ایک انڈہ بھی پندرہ روپے کا ہے، تین چار افراد کے گھرانوں میں روزانہ تقریبا سو روپے کے انڈے چاہیے۔

* گھروں کے جوان لڑکے لڑکیاں غیر ضروری سوشل ایپس مثلاً ٹک ٹاک، فیس بک، ویڈیو گیمز کو پہلی فرصت میں چھوڑ دیں، اور اس کی جگہ انٹرنیٹ سے پیسے کمانے کے طریقے سیکھیں۔

* آن لائن بزنس سے آگاہی حاصل کریں، آن لائن مفت کورس کریں اور آن لائن پیسے کما کر اپنے والد کا ہاتھ بٹائیں۔

* کسی سے سیاسی، فرقہ اور لسانی بحث مباحثہ نہ کریں، بحث کرنے والا وقت کسی کاروباری سرگرمی میں لگائیں، محلے کی کسی دکان میں پارٹ ٹائم جاب کرلیں، تاکہ جیب میں کچھ نہ کچھ پیسے رہیں۔

*جہاں تک ممکن ہو پیدل سفر کریں، گاڑی اور موٹر سائیکل سے اجتناب کریں، اگر ہو سکے تو چھوٹے سفر کے لیے سائیکل کا انتخاب کرلیں۔

* مارکیٹ میں کسی چیز کی کمی (Shortage) پر پریشان نہ ہوں، اور نہ ہی زیادہ خرید کر سٹور کریں، صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں تاکہ ہر فرد اپنی ضرورت کی چیز خرید سکے۔

*اپنی ضرورت کے بعد جہاں تک ممکن ہو صدقہ اور خیرات، غریب رشتہ داروں، محلہ داروں کا خیال کریں، ان کا دھیان رکھیں کہ کوئی بھوک کے ہاتھوں پریشان تو نہیں۔

*حالیہ پیٹرول کی مہنگائی نے عام لوگوں کو تو کجا بڑے بڑوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، عام لوگ خوف کا شکار ہو چکے ہیں، یہ مشکل دور ہے، انشاءاللہ گزر جائے گا، اس مشکل دور میں کوئی سیاسی اختلاف، بحث یا گفتگو کرنے سے گریز کریں، کہ اگر اس تکلیف کے دور میں بھی ہم نے اپنی بلاوجہ بحث کی بری عادت نہ چھوڑی، تو یہ وقت ہمیں بھی نہیں چھوڑے گا، اور اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔

یاد رکھیں، اگر اس مشکل دور میں اتحاد اور صبر کا مظاہرہ نہ کیا تو نہ کوئی لیگی بچے گا نہ جنونی، نہ جماعتی بچے گا نہ ساتھی، نہ مسٹر نہ مولانا۔

اگر اس وقت بھی کسی کو یہ باتیں نہ سمجھ میں آئیں تو برائے مہربانی وہ کرشن چندر کا ناول "اندھیرے کا ساتھی" ڈھونڈ کر ضرور پڑھ لے، دوراندیش لکھاری نے یہ ناول شاید آج کے حالات کو دیکھ کر لکھا ہوگا۔

Check Also

Akbar Badshah, Birbal Aur Modern Business

By Muhammad Saqib