Saturday, 27 July 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Madawa Kon Kare Ga?

Madawa Kon Kare Ga?

مداوا کون کرے گا؟

گندم کی فصل اس بار قدرت کی مہربانی سے پیداوار کے لحاظ بہت اچھی رہی۔ لیکن چند نا عاقبت اندیش لوگوں کے ہاتھوں اس بار کسانوں کی جو درگت بنی ہے الحفیظ الامان۔۔

شاید یہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ریاست نے گندم کی خریداری سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ ایک یہی فصل تھی جس کو حکومت اون کرتی تھی۔ کسان بھی اسی بات میں خوش تھا کہ گورنمنٹ کے ریٹ پر اس کو گندم کی قیمت مل جاتی تھی۔ گو کہ وہ بھی کچھ اتنی زیادہ نہیں ہوتی تھی لیکن ایک چین تھی۔ کسان بھی اپنے سارے سال کے حساب کتاب بنا کر سوچ کر پلان کرکے رکھتا تھا۔ لیکن اس بار ان سب پر پانی پھر گیا۔ کسان کے ساتھ ہی پنجابی زبان وچ ہتھ کیوں ہو جاندا؟

کسان کو سب سے زیادہ نقصان مڈل مین پہنچاتا ہے دوسری جتنی بھی اجناس ہیں ان سب میں وہ ان کے ہاتھوں یرغمال بنتا ہے۔ اس کو اس کی محنت کا معقول معاوضہ نہیں ملتا چہ جائیکہ کہ اب گندم بھی انہی کے ہاتھوں میں دی جائے۔ ظلم کی انتہا ہے۔ کاش وہ بابوؤں جو ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کے کسان کی قسمت کے فیصلے کرتے ہیں۔ تھوڑا سا حقائق پر بھی نظر رکھیں تو کسان کی بد دعاؤں سے بچ سکتے ہیں۔

کبھی گندم کی فصل کی تیاری سے لیکر گندم کی فصل کے حصول تک کا خرچہ نوٹ کریں پھر اس کی مارکیٹ قیمت سے موازنہ کریں تو چودہ طبق روشن ہو جائیں۔ صرف شہری لوگوں کو روٹی سستی دینے کے چکر میں غریب کسانوں کو قربانی کا بکرا بنا لینا کسی بھی طرح قرین انصاف نہیں۔

کچھ تھیوریز بھی گردش کر رہی ہیں جیسا کہ حکومت میں موجود لوگ زیادہ تر شوگر ملز مالکان ہیں۔ اس بار کسان نے گنا اگانے سے کافی حد تک ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ گنے کی پیداوار پہلے کی نسبت کم تھی۔ کسان کو سبق سکھانے کے لئے ان کو دوبارہ زبردستی گنے کی فصل کی طرف راغب کرنا ایک وجہ ہو سکتی ہے، تا کہ ان کے کاروبار چلتے رہیں۔ کسان جائے بھاڑ میں۔

دوسری بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے کہ حکومت میں موجود پراپرٹی مافیا کسانوں کو بد دل کرکے زرعی زمینوں کو اونے پونے خرید کرکے اپنی رہائشی اسکیمز بنا کر چاندی بنانے کے چکروں میں ہے۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو نقصان صرف اور صرف کسان کے کھاتے میں آیا ہے۔

ہم پتہ نہیں کیوں آج تک کوئی ایسا میکانزم نہیں بنا پائے جس میں ہم صحیح صحیح اندازہ لگا سکیں کہ ہمیں کتنی گندم کی ضرورت ہے۔ یہی حال چینی کے معاملے میں ہے۔ گندم سے پہلے مونجی کی فصل کا بھی یہی حال ہوا کہ رل گئی اچھی قیمت نہیں ملی۔ ان سب کا مداوا کون کرے گا؟ ریاست تو ماں کی مانند ہوتی ہے ماں نے اچانک سے کیوں اپنا سایہ شفقت اٹھا لیا ہے؟

کھاد، بیج، ڈیزل، بجلی کے بل سب کی قیمتیں کہاں تک پہنچ گئی ہیں۔ ہم کسان سے یہ توقع کئے بیٹھے ہیں کہ وہ ہمیں خوراک میں خود کفیل کر دے گا ایک دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔

موجودہ حالات میں سب سے زیادہ پسا ہوا طبقہ چھوٹا کسان ہے۔ اور یہ ملک کی آبادی کے تناسب کے حساب سے سب سے زیادہ ہے۔ اس طبقے میں بے چینی پائی جا رہی ہے۔ دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں جتنے بھی انقلاب آئے ہیں نیچے سے پسے ہوئے محکوم طبقے کے انگڑائی لینے سے آئے ہیں۔ خوش قسمتی سے ان کسانوں کی نمائندگی ایسے ہاتھوں میں ہے۔ جو کہ باہمی تال میل نہیں رکھتے ان کی آواز موثر نہیں ان کی رسائی عام کسان تک نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کسانوں کے حقیقی نمائندے نہیں ہیں۔

یہی حکومتی ایوانوں کے لئے سکھ کا باعث ہے۔ اگر کسانوں کی دادرسی نہ کی گئی تو یاد رکھئیے کسانوں کی بے چینی اور ان کی خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔

کسان نے اگر اس شعر پر عمل شروع کر دیا تو حکمرانوں کی نیندیں حرام ہو جائیں گی، بقول شاعر

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشئہ گندم کو جلا دو

بظاہر اب ایسا لگ رہا کہ کسان اگلے سال گندم کی فصل بہت سوچ سمجھ کے لگائے گا جو کہ پیداوار کی کمی کا باعث ہوگا ارباب اختیار ابھی سے اس کی تیاری پکڑ لیں پھر نہ کہئے گا کہ۔۔

اب کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت

Check Also

Daulat Ko Apni Taraf Kaise Khainchen

By Asif Sipra