Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zaara Mazhar/
  4. Main Aik Damad Hoon (1)

Main Aik Damad Hoon (1)

میں ایک داماد ہوں(1)

میں ایک داماد ہوں، اور برصغیر کے معاشرے میں داماد کا تعارف کلف لگے لٹھے کا ہے، مجھے اس رشتے میں بندھے دو برس سے کچھ زائد ہو چکے ہیں۔ داماد ہونا معاشرے میں پہلا پہلا ذاتی، قانونی رشتے سے منسلک ہونے کا تجربہ ہوتا ہے۔ سب کچھ نیا نیا سا اور کچھ انوکھا سا لگتا تھا۔ سینئر کزنز اور دوستوں نے رضا کارانہ طورپر، بہت سے ٹیپیکل برصغیری معاشرت کے اصولِ منصبِ دامادی ازبر کروانے شروع کئے۔ اس سے پہلے میرا بہنوئی، داماد بننے کے کئی اصول عملی طور پہ چکھا چکا تھا۔ اپنے گھر میں ڈھیلے ڈھالے انداز میں بھیگا بلا بن کے رہنے والا، سسرال میں آتے ہی شیر بن جاتا، گردن میں غیر معمولی سا اکڑاؤ آجاتا، اور ٹانگ سے ٹانگ نہ اُترتی۔

اُٹھتے بیٹھتے کپڑوں کی سلوٹیں نکالتا رہتا، زبان میں بھی گوند چپک جاتی، بولنے کا انداز گھمبھیر ہو جاتا، بہن بھی لجاجت سے للیانے لگتی اور ماں، ماں تو پلکیں بچھا دیتی۔ اس کے کھانے کے وقت شوکیس والے برتن نکال لیتی، کرسی یا صوفہ پیش کرتے وقت اکثر اپنے نماز والے دوپٹے سے جھاڑ دیتی، کسی کو اونچی آواز میں بولنے نہ دیتی کہ داماد آیا ہوا ہے، سانس بھی گُھٹ گُھٹ کے لو، غلط تاثر نہ پڑ جائے۔ یہ نہ سمجھ لے کہ بچوں کو تہذیب اور تربیت سے کوئی واسطہ نہیں ہے، ہمارے لئے یہ سرزنش معمول کی بات تھی۔ گویا داماد نہ ہوا، ہوّا ہوگیا۔

دورانِ تعلیم مجھے اپنی کلاس فیلو آیوشہ سے بڑے زور کی محبت ہوگئی۔ آیوشہ جاپانی نام ہے، جس کا مطلب ہے زندگی۔ بس وہ میری زندگی ہی بن گئی، جس روز وہ نظر نہ آتی میری سانس سچ مچ کی بند ہونے لگتی۔ اسے ایک نظر دیکھ لینے سے سانسوں میں روانی آجاتی۔ اس نے بھی میرے جذبوں کی تپش محسوس کر لی تھی، لیکن اس نے کبھی میری ہمت افزائی نہیں کی، یہ ایک خاموش معاہدہ تھا، کیونکہ یونیورسٹی کے عام رجحان کے مطابق وہ کسی اور کی طرف بھی متوجہ نہیں ہوئی۔ مجھ میں پسند کرنے سے زیادہ، آگے بڑھنے کی ہمت نہ تھی، کہ اگر ماں نہ مانی؟

فائنل سمیسٹرچل رہا تھا۔ دن پرندوں کی طرح فضا میں پھریرے بھرتے اڑ رہے تھے، ابھی تمام کے تمام پنچھی بوریا بستر سمیٹ کے، اڑنچھو ہو جانے تھے، وقت مٹھی میں ریت کے جیسا پھسل رہا تھا۔ میرا بس نہ چلتا تھا، یہ پھسلتے دن روک لوں۔ ڈگری کے بعد واپس وہی آتے، جنہوں نے ایم ایس یہاں سے کرنا تھا، پتہ نہیں کون کون یونیورسٹی کے میرٹ پہ آتا؟ کون کون روزگار کے تلاش کے چکروں میں الجھ جاتا، کون سال دو سال کے ریسٹ پہ چلا جاتا، اور کتنی لڑکیاں ڈولی میں بٹھا دی جاتیں۔ ہر گزرتے دن کے اختتام پہ میرے دل میں لگے پنکھے تیز ہو رہےتھے۔

آیوشہ دن بدن پُرکشش اور ناقابل رسائی لگنے لگی تھی۔ میں نے سوچا اس ویک اینڈ پہ ماں کو آیوشہ کا بتا دوں گا، معاملہ آر یا پار کہیں تو لگے گا۔ مجھے معلوم تھا ماں نہیں مانے گی، ابھی چند مہینوں میں بمشکل ڈگری پوری ہوگی، بائیس برس میں ادھوری تعلیم کے ساتھ کون ماں بیٹے کا رشتہ کرتی ہے؟ اور گھر میں چچا زادیوں اور خالا زادیوں کی لائین لگی تھی، جن کی مائیں وقتاً فوقتاً ماں کے دربار میں حاضری دیتی رہتی تھی، ماں کو جلدی نہیں تھی، لیکن میرے پاس اور کوئی آپشن نہیں تھا۔

اس روز ماں میرے سر میں تیل جَھس رہی تھی، جب میں نے رخ موڑے بڑی جرات سے دھیرے دھیرے ماں کو آیوشہ کا بتا دیا۔ میری بات ختم ہونے سے پہلے، میرے سر پہ ماں کی ناچتی انگلیاں یکلخت رک گئیں۔ مجھے لگا، اگلے چند سیکنڈز میں ماں کے بولتے ہی میرا دل بھی ایسے ہی رک جائے گا۔ لیکن پھر انگلیاں دھیرے دھیرے چلنے لگیں، جیسے رکی ہوئی فضا پھر سے گردش میں آگئی ہو۔ ماں نے آیوشہ کے متعلق چند سوال پوچھے اور آسانی سے رضامندی دے دی، میں بے یقینی کے انداز میں انکی طرف گھوم گیا، اس دن مجھے ماں کی خود سے بے تحاشا محبت کا یقین ہوگیا۔

میں جذبات کے وفور میں ماں سے لپٹ گیا۔ ماں نے کہا خاندان سے ایک گھر کی لا کے، باقی سب کو ناراض کرنے سے بہتر ہے، میں اس بپھرے سمندر میں پاؤں ہی نہ ڈالوں، یوں ایک دن ہم آیوشہ کے گھر جاپہنچے، اور ماں نے اسے میرے لئے مانگ لیا۔ آیوشہ کے گھر والے روشن خیال تھے، انہوں نےلڑکے لڑکی کی پسند کو اہم جانا، میرے مستقبل کے منصوبے پوچھے، اور وہیں ہاں کر دی۔ نہ سوچنے کا وقت مانگا، نہ جائداد کی تفصیل، نہ یہ پوچھا کہ گاڑی کس کی ہے یا آپ کا سٹیٹس کیا ہے؟

ماں نے میری پسند کے لئے ہاں تو کر دی، لیکن کئی طرح کے تحفظات میں گھر گئی۔ شادی سے پہلے ماں بہن نے کئی طرح کے درس مجھے دئیے۔ داماد سسرال میں دبدبے سے رہتے ہیں، اکڑ کر جاتے ہیں۔ بات بات میں نقص نکالنا، زیادہ بولنا مت، نہ ہی زیادہ گُھلنا مِلنا، تم اس گھر کے داماد ہو اور داماد کو کلف لگی ہونی چاہئیے۔ کلف جتنی زیادہ لگی ہوگی، اتنی ہی عزت ملے گی۔ مجھے لگتا، مجھ سے اکڑنے والا رول پلے نہیں ہوگا۔ بیوی کو پہلے دن سے دبا کے رکھنا ہے، ورنہ ہاتھ سے نکل جائے گی۔ تمہارے ابا نے تو پہلے ہی دن بلی مار دی تھی، پھر جو دھاک تمام عمر کے لئے مجھ پہ بیٹھی، اس کے اثر سے آج تک نہیں نکل سکی۔ ماں کا بس نہیں چل رہا تھا، کہیں سے بلی لا کے میرے ہاتھوں ہلاک کروا دے۔

بارات کی تقریب بہت خوبصورتی سے ہوئی۔ کہیں کوئی افراتفری نہیں تھی، رس گھولتی موسیقی میں رسمیں بڑے ضبط اور پر وقار طریقے سے ادا کی گئیں۔ میری اکلوتی سالی، سہیلیوں اور کزنز کے جھرمٹ میں دودھ پلائی کی رسم کے لئے آئی، تو سب باراتی پرجوش ہوئے کہ شائد اب رنگ جمے گا، ہنسی ٹھٹھول کی حدود کراس ہوں گی، تکرار میں سریلے قہقہے لنڈھائے جائیں گے، جھوٹی جھوٹی ناراضگی کی ادائیں دکھائی جائیں گی، لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ ماں نے پانچ ہزار کا مڑا تڑا نوٹ نکال کے، تکرار کی شروعات کیں اور چھوٹی کے ہاتھ پہ دھر دیا، وہ بنا مزید مطالبہ کئے آرام سے ہٹ گئی، سب کے جوش سینے میں ہی گھٹ گئے۔ رخصتی پہ آیوشہ کی امی اور بہن اسے گلے سے لگا کے، بے آواز سا روئیں۔ آیوشہ کے ابو نے سر پہ ہاتھ رکھا اور رخصت کر دیا۔

Check Also

Hamari Qaumi Nafsiat Ka Jawab

By Muhammad Irfan Nadeem