1.  Home
  2. Blog
  3. Yaseen Malik
  4. Yvonne Ridley (2)

Yvonne Ridley (2)

ایوان ریڈلی (2)

پچھلے کالم میں ہم ایوان ریڈلی سے متعلق بات کر رہے تھے جو ایک برٹش فی میل رپورٹر تھی جو پاکستان کے راستے افغانستان اس غرض سے گئی تھی تاکہ وہاں وہ امریکیوں کے افغانستان پر حملے کی براہ راست رپورٹنگ کر سکے۔ لیکن وہ طالبان کے ہاتھوں پکڑی گئی تھی۔ طالبان کی قید میں اس نے تقریباً دس دن گزارے تھے جس کے بعد اس کو رہا کیا گیا۔

دوران قید طالبان نے اس کے ساتھ جو سلوک کیا اس سے وہ بہت زیادہ متاثر ہوئی۔ قید کے دوران طالبان کے ایک عالم دین نے ایوان ریڈلی کو اسلام لانے کی ترغیب بھی دی تھی۔ جس کے جواب میں ریڈلی نے کہا تھا کہ اتنا بڑا فیصلہ وہ ابھی تو نہیں کر سکتی کیونکہ یہ ایک اہم فیصلہ ہے لیکن وہ وعدہ کرتی ہے کہ انگلستان جا کر وہ اسلام کا مطالعہ ضرور کرے گی اگر وہ کسی نتیجے پر پہنچی تو وہ ضرور اس بارے میں کوئی فیصلہ کرے گی۔

اس کے بعد اس نے اس وعدہ کو پورا کر کے دکھایا چنانچہ اس نے 30 جون 2003 کے دن عمران خان کے ہاتھوں اسلام قبول کیا۔ اس کا اسلامی نام مریم رکھا گیا۔ اس کے بعد وہ متعدد مرتبہ افغانستان کے دورے پر گئی ایک دورے کے دوران وہ اپنی بیٹی کو بھی ہمرا لے گئی تھی۔ ایک انٹرویو کے دوران جب اس سے پوچھا گیا کہ اسلام لانے کے بعد اس کے معمولات زندگی اور روزمرہ کی سرگرمیوں پر کیا اثر پڑا؟

تو اس کے جواب میں اس نے کہا کہ میں نے شراب پینا بالکل چھوڑ دیا ہے، کلبوں کا اٹینڈ کرنا، چیس کھیلنا، مخلوط مخفلوں میں شرکت کرنا وغیرہ سب ترک کر دیا ہے۔ میں ان تمام حرکتوں سے اجتناب کرتی ہوں جسے گناہ کہا جاتا ہے، میں اسلامی تعلیمات کے مطابق حجاب پہنتی ہوں، اس میں ہاتوں کے سوا باقی سارا جسم ڈھانپا ہوتا ہے۔ میں ممکن حد تک اسلامی طرز معاشرت اختیار کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔

وہ کہتی ہے کہ جو لوگ مجھے بطور ایوان ریڈلى بے حد عزیز جانتے تھے وہ مجھے بطور مریم دیکھ کر شش و پنچ میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور کچھ دھیمے دھیمے سے رہتے ہیں۔ لیکن جو بھی ہو ان کو طالبان اور اسلام کے بارے میں ایک ناقابل فراموش پیغام تو مل گیا۔ وہ کہتی ہے کہ مجھے عیسائیوں کے ایک طبقے کی طرف سے دھمکیاں ملتی رہتی ہے جن کا کہنا ہے کہ میں نے ان کے مذہب سے غداری کی ہے۔

وہ کہتی ہے کہ یہ ان کی سوچ ہے اور میری سوچ یہ ہے کہ میں نے اپنے مطالعے اور ضمیر کے مطابق ایک فیصلہ کیا ہے جس سے مجھے بے پناہ اطمینان حاصل ہوا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ میں سوچتی ہوں کہ اسلام لانے سے پہلے میرا کوئی نصب العین نہیں تھا لیکن اب مجھے جینے کا ایک واضح مقصد نظر آ گیا ہے زندگی بہت خوبصورت دکھائی دے رہی ہے۔ البتہ مجھے ایک پچھتاوا ہے کہ میں نے اسلام کو سمجھنے میں اتنی دیر کیوں کی۔

پھر میں یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتی ہوں کہ اللّٰہ تعالٰی نے مجھ پر نظرِ کرم کر ہی دی ہے اب باقی زندگی اس کے احکام کے مطابق گزاروں گی۔ وہ کہتی ہے کہ میں اب مسلمانوں اور غیر مسلموں کو جو اسلام سے دور بھاگتے ہیں بتانا چاہتی ہوں کہ میں نے مغربی معاشرے کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ میں اس کے سارے رنگ دیکھ چکی ہوں، نام نہاد تہذیب اور اس کے معاشرے کو باریک بینی سے دیکھا ہے اسلئے میں جانتی ہوں کہ وہ کتنا خطرناک معاشرہ ہے۔

دور سے تو بہت چمکدار اور خوبصورت ہے لیکن اگر قریب سے دیکھو تو بہت بھیانک ہے۔ یہ صرف جان و مال اور مادیت سے غرض رکھتا ہے اور روحانی اقدار کیلئے تباہ کن اثرات رکھتے ہیں۔

قرائین یہ پڑھ کر مجھے شاعر مشرق علامہ اقبال کا ایک شعر یاد آگیا جو ایوان ریڈلی اس بیان پر صادق آتی ہے وہ کہتے ہیں۔

یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے۔

حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمت۔

بہرحال ایوان ریڈلی کہتی ہے کہ میں مسلمان عورتوں سے کہتی ہوں کہ اس معاشرے کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا، اسلام سے بڑھ کر کوئی تمہارا محافظ نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایوان ریڈلی نے ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی تھی جہاں جنسی آزادی عروج پر ہے، جہاں عورت کی مدر پدر آزادی تہذیب کا حصہ ہے، جہاں کا قانون جنسی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے وہ راستے جائز قرار دیتے ہیں جو ہمارے اسلام میں حرام ہے۔

جہاں کے مردوں کے خمیر میں بھی یہ شامل نہیں کہ وہ کسی نا محرم عورت کے سامنے اپنی نگاہیں نیچے رکھیں، جہاں شراب و کباب کی محفلیں تفریح سمجھی جاتی ہیں۔ اور یہ وہی محفلیں ہیں جس میں نامحرم بوآئے فرینڈز اور گرل فرینڈز آپس میں سر عام بوس و کنار کرتے نظر آتے ہیں، مختصراََ یہ کہ وہ ایک ایسے معاشرے میں پھلی بڑی تھی جہاں محرم و نا محرم اور جائز و ناجائز وغیرہ کا کانسپٹ بھی ختم ہو چکا ہے۔

بہرحال اس نام نہاد مہذب ماحول سے نکل کر ایوان ریڈلی نے جب پاکستان اور پھر افغانستان کی سر زمین پر قدم رکھا تو یہاں کے ماحول اور وہاں کے ماحول میں اس کو زمین و آسمان کا فرق محسوس ہوا۔ اور پھر جب اس نے طالبان کے نوجوان سپاہیوں کے رویے دیکھے جو اس پر نظر رکھنے سے بھی پرہیز کرتے تھے تو اس کے چودہ طبق روشن ہوئے۔

وہ سوچنے لگی کہ کیا ایسے بھی لوگ موجود ہیں جو لاکھوں میل کے فاصلے پر کوئی عورت ان کے قبضے میں آتی ہے اور وہ اس کے ساتھ بہن کی طرح پیش آتے ہیں۔ وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی لیکن اب اس نے اس کی عملی مثال دیکھ لی تھی۔ اور اس نے اسلام کے پیروکاروں کی زندگیوں میں اسلام کی عملی جھلک دیکھی جس سے وہ باوجود آزادانہ ماحول میں پرورش پانے کے متاثر ہوئی اور اسلام کو دل و دماغ سے قبول کیا۔

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مسلمان ہونے سے پہلے وہ بھی یورپ ذہنیت رکھنے والی ایک عورت تھی جس کی نظر میں ہر مسلمان دہشتگرد ہوتا ہے، جو مسلمانوں کو قدامت پسند تصور کرتے ہیں، مسلمانوں کو جابر تصور کیا جاتا ہے اس لئے کہ انہوں نے اپنی عورتیں چار دیواریوں میں بند کر دی ہیں، اس لئے کے وہ اپنی عورتوں کو برقعے کے بغیر باہر جانے کی اجازت نہیں دیتے۔

لیکن جب اس نے اسلام کو سٹڈی کیا اور طالبان سپاہیوں میں اسلام کو عملی صورت میں دیکھا تو وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوئی کہ واقعی اگر عورت کی جان و مال اور عزت و آبرو کو تحفظ حاصل ہے تو اسلام میں، مغرب کا نظام تو ہاتھی کے دانت ہے جو کھانے کے اور ہے اور دکھانے کے اور ہے۔

ایوان ریڈلی کی یہ داستان تمانچا ہے ان نام نہاد مہذب اور روشن خیال لوگوں پر جو کہتے ہیں کہ اسلام تو پرانا ہو چکا ہے اور جن کی نظروں میں مغرب ہی ایک بہترین پیمانہ ہے جس سے وہ اسلامی تعلیمات کو ماپتے ہیں اور پھر اسلام سے بیزار ہو جاتے ہیں کہ یہ تو ظلم و جبر کا دین ہے، یہ تو عورتوں کی آزادی کو سلب کرنے کا دین ہے۔ مغربی سماج کے یہ پجاری پھر سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور میرا جسم میری مرضی وغیرہ جیدے نعرے لگا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اب ہمیں اسلام کی ضرورت نہیں بلکہ اب ہمیں مغرب کی پیروی کرنی چاہئے کہ وہ تو ہر لحاظ سے عروج کو پہنچ گئے اور ہم ہے جو پیچھے رہ گئے۔

ہم نے اگر صحیح معنوں میں اسلام کو اپنی زندگیوں میں شامل کیا جس طرح کے طالبان کے سپاہیوں نے اس کا مظاہرہ کیا تو یہ تو ایک ایوان ریڈلی تھی ایسی ہزار ایوان ریڈلی پیدا ہونگی جو مسلمانوں کے اخلاق سے متاثر ہو کر اسلام کے دائرے میں داخل ہونگیں۔

یہ تو دین اسلام سے دوری کا نتیجہ ہے کہ آج ہم کو مغرب ہی ہر لحاظ سے کامیاب نظر آتا ہے۔

Check Also

Akhir Ye Majra Kya Hai?

By Tayeba Zia