1.  Home
  2. Blog
  3. Yaseen Malik
  4. Yvonne Ridley (1)

Yvonne Ridley (1)

ایوان ریڈلی (1)

اس کہانی کا آغاز 11 ستمبر 2001 کو امریکہ کے تجارتی شہر نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے سے ہوتا ہے جس سے نہ صرف امریکہ بلکہ مغربی دنیا کے ہر شہری کے ہوش و حواس اڑ گئے تھے کیونکہ انہیں یہ ڈر تھا کہ دہشتگرد ان کی سرحدوں کو پار کرچکے ہیں اور اب ان کا جینا محال ہونا ہے۔ اپنے اپ کو دنیا کا طاقتور اور مہذب یافتہ ملک قرار دینے والا امریکہ اتنا بڑا جرم کیسے برداشت کرسکتا تھا جارج بش نے فوراً قوم کے سامنے آکر ان کے ساتھ اس واقعے میں ملوث عناصر کو انجام تک پہنچانے کا وعدہ کیا۔ اس نے کہا تھا کہ اس جنگ میں جو ہمارا ساتھ نہیں دیگا اس کو دہشتگرد تصور کیا جائے گا جارج بش غیض و غضب میں تھا اور یہاں تک کہہ دیا کہ دہشتگردی کے خلاف جو جنگ ہوگی وہ صلیبی جنگ ہوگی۔

صلیبی جنگیں عیسائیوں کی وہ جنگیں تھی جو مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی غرض سے لڑی گئی تھیں اور جن میں عیسائیوں کو چرچ کے پوپ کی بھی پوری حمایت حاصل تھی۔ یہ جنگیں تقریباً دو صدیوں پر محیط تھیں اور ان میں تقریباً ساتھ لاکھ قمیتی جانیں ضایع ہوئیں تھیں۔ ان میں عیسائیوں کے عزائم اسلام اور اسلام کے پیروکاروں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے تھے لیکن خوش قسمتی سے ان کے ان عزائم میں سلطان صلاح الدین آیوبی جیسے بہادر اور دلیر سپاہ سلار رکاوٹ بنے اور ان کے ان عزائم کو خاک میں ملادیئے۔ لیکن اب جارج بش نے ایک مرتبہ پھر اس طرح کی چنگاری کو ہوا دی تھی لیکن وہ شائد یہ بھول چکا تھا کہ مسلمانوں میں اب بھی سلطان صلاح الدین آیوبی جیسے بہادر اور نڈر جرنیلوں کی کمی نہیں اور آنے والے وقت میں یہ حقیقت عیاں بھی ہوچکی جب اسامہ بن لادن اور ملا عمر کی صورت میں انہیں ایک اور صلاح الدین آیوبی کا سامنا کرنا پڑا۔

بہرحال جب بش نے افغانستان میں پناہ لئے القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کے خلاف قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا تو مغربی میڈیا کے صحافی جوق در جوق پاکستان کی طرف آنے لگے اور ان میں سے اکثر تو لائیو کوریج کیلئے افغانستان بھی گئے تاکہ افغانستان میں آگ و خون کے کھیل کا جو میدان کارزار کھولنے والا تھا اس کا لائیو کوریج نشر کرسکے اور اپنے ٹی آر پی کو بڑھا سکے۔ بہرحال ان صحافیوں میں ایک برطانیہ کے سنڈے ایکسپریس کے فی میل نیوز رپورٹر ایوان ریڈلی بھی تھی جو پاکستان سے براستہ طورخم بارڈر افغانستان گئی تھی۔ ایوان ریڈلی نے یوں تو زندگی بھر برقع نہیں پہنا تھا لیکن سرزمین افغانستان میں چونکہ اس کی یورپ کے اسی نیم عریاں لباس میں داخلہ ممکن نہیں تھا سو اس لئے اس نے پاکستان میں برقع خریدا اور اس کو اوڑھ کر افغانستان کے اندر داخل ہوئی۔ اس منصوبے کو عملی جمع پہنانے کے لئے اس نے پشاور کے کچھ مقامی لوگوں کی خدمات حاصل کی تھیں جنہوں نے اس کو ایک اور فیملی کے ساتھ لے جانے کا منصوبہ بنایا یہ فیملی رشتہ داروں کے کسی شادی کی تقریب میں شرکت کے غرض سے افغانستان جارہی تھی۔

بہرحال یہ جب افغانستان پہنچی تو وہاں کچھ جگوں کی تصویر کاری بھی کی لیکن وہاں اس سے ایک غلطی سرزد ہوئی جس کی وجہ سے لوگوں نے اسے دیکھ لیا اور یوں یہ طالبان افغانستان کے ہاتھوں پکڑی گئی۔

اس غلطی کے بارے میں وہ کہتی ہے کہ ایک دفعہ جب میں گدھے پر سوار ہورہی تھی تو میں گدھے کی لگام کو مضبوطی کیساتھ پکڑنے کی غرض سے آگے کو جھکی اور یوں میرا کیمرا وہاں موجود سپاہی طالب نے دیکھ لیا اور اسی اثنا میں طالبان کے دیگر لوگ بھی وہاں پہنچے اور یوں تفتیش کرتے کرتے اس کی یہ راز فاش ہوگئی کہ وہ تو کوئی پشتون عورت نہیں بلکہ انگلستان کے کسی نیوز چینل کی نیوز رپورٹر ہے۔ اس کے بعد اس کو قید کرلیا گیا اور اس نے طالبان کی جیل میں دس دن گزارے۔

دوران قید طالبان نے اس کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا جس کا اظہار اس نے انگلستان جاکر کیا۔ وہ کہتی ہے کہ جب اس کو پکڑ کر جیل میں ڈالی گئی تو اسے یہ خدشہ تھا کہ اب اس کو سنگسار کیا جائے گا لیکن یہاں آکر اس نے طالبان کے رویے کو توقع کے برعکس پایا یہاں طالبان کا تفتیشی عملہ اور انٹیلجنس کے کارندے اس کے ساتھ بہت شفقت سے پیش آئے اس کو صاف ستھرے ایئر کنڈیشن کے کمرے میں رکھا گیا۔

وہ کہتی ہے کہ ایک مرتبہ جب اس نے طالبان سے کہا کہ اسے کوئی ٹیلی فون دی جائے تاکہ وہ اپنے گھر والوں سے بات کرسکے تو اسے جب ٹیلی فون نہ دی گئی تو اس نے پریشان ہوکر جیل کے اندر بھوک ہڑتال کی جس پر جیل کے عملے کے ایک فرد نے اسے کہا کہ اس کی پریشان ہونے پر ہم سب پریشان ہے۔حتٰی کہ وہ طالبان کے تفتیش کاروں سے بہت غیر مہذب انداز سے پیش آتی رہی لیکن وہ ان سب کو نظر اندار کرتے رہے۔

ایک نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں ایوان ریڈلی نے کہا کہ "جلال آباد میں تفتیش کے دوران تفتیش، انٹیلجنس اور اور دیگر عملہ کے ارکان کے رویے نے مجھے ایک عجیب تجربے سے دوچار کیا۔ وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کرتے تھے وہ مجھ پر سوال کر کے یا تو پیچھے کسی دیوار پر نگاہ مرکوز کئے رکھتے یا چھت کو گورتے رہتے۔ مجھے ان سے تنہائی کے مواقعہ بھی ملے اور تنہائی میں بھی ان کا وہی رویہ ہوتا جو ان کا اکھٹے میرے ساتھ ہوتا تھا۔

وہ کہتی ہے کہ میں نے تفتیش کاروں کو اشتغال دلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، میں نے تفتیش کاروں کے منہ پر تھوکا، انہیں گالیاں دے کر بری طرح دھتکارتی رہی۔ لیکن اس کے جواب میں وہ مجھے اپنی بہن اور معزز مہمان کہتے رہے، انہوں نے مجھے ایئر کنڈیشنڈ اور صاف ستھرے کمرے میں رکھا جس کی چابی بھی مجھے دی گئی تھی۔

ایوان ریڈلی کہتی ہے کہ ان حالات کا موازنہ ابو غریب اور گوانتاناموبے کی جیلوں میں قیدیوں سے روا رکھے گئے حالات سے کیجئے امریکی ان کے ساتھ انتہائی غیر انسانی سلوک کر رہے ہیں۔ انہیں ایسے پنجروں میں رکھا گیا ہے جن میں وہ سیدھے کھڑے بھی نہیں ہوسکتے۔

یہاں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ طالبان صرف ایوان ریڈلی کیساتھ ہی اس طرح پیش نہیں آئے بلکہ وہ ہر قیدی عورتوں کیساتھ اسی رویے سے پیش آتے ہیں اور اس سے ان کا مقصد کسی کو متاثر کرنا نہیں بلکہ اسلام کے ان درخشندہ اصولوں کو عملی جمع پہنانا ہوتا ہے جو اسلام نے جنگ یا امن کے دوران عورتوں کے ساتھ روا رکھنے کے بارے میں پیش کئے ہیں۔

بہرحال قید کے دوران طالبان کے ایک عالم دین نے ایوان ریڈلی کو اسلام لانے کی ترغیب بھی دی جس کے جواب میں ریڈلی نے کہا کہ اتنا بڑا فیصلہ وہ ابھی تو نہیں کرسکتی کیونکہ یہ ایک اہم فیصلہ ہے لیکن وہ وعدہ کرتی ہے کہ انگلستان جاکر وہ اسلام کا مطالعہ کرےگی اگر وہ کسی نتیجے پر پہنچی تو وہ ضرور اس بارے میں کوئی فیصلہ کرے گی۔

اس کے بعد ایوان ریڈلی نے انگلستان جاکر نے اسلام قبول کیا لیکن کیسے، کیوں، اور کس کے ہاتھوں، یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے جس کا ذکر اگلے کالم میں ہوگا۔

Check Also

Madawa Kon Kare Ga?

By Dr. Ijaz Ahmad