1.  Home
  2. Blog
  3. Yaseen Malik
  4. Thomas Paine Ki Batein (2)

Thomas Paine Ki Batein (2)

تھامس پرنس کی باتیں(2)

گزشتہ سے پیوستہ برطانیہ کے آئین پر تنقید کرتے ہوئے تھامس پین لکھتا ہے کہ کوئی چیز جتنی سادہ ہو گی، اس کے بدانتظامی اتنی ہی کم ہوگی اور وہ خراب ہونے کی صورت میں آسانی سے مرمت بھی ہوسکے گی، اور اس کہاوت کو مدنظر رکھتے ہوئے میں برطانیہ کے اس قدر مشکل تعریفوں والے آئین پر چند جملے پیش کرتا ہوں۔ یہ بات تو طے ہے کہ یہ آئین جن تاریک و غلامانہ زمانوں میں قائم کیا گیا، اس وقت یہ اعلی تھا۔

جب دنیا آمریت کے پنجے میں تھی تو یہ آئین ایک شاندار نجات تھا۔ مگر یہ بات آسانی سے دیکھی جاسکتی ہے کہ یہ نامکمل ہے۔ افراتفری کے زمانے کے زیر اثر ہے اور ان چیزوں کے لائق نہیں ہے۔ جن کا یہ وعدہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ آمرانہ حکومتیں اپنے اندر یہ فائدہ رکھتی ہے کہ وہ سادہ ہوتی ہے۔ اگر لوگ تکلیف میں آجائے تو وہ اس بات کو جانتے ہیں۔

جہاں سے ان کی مصیبت ابھرتی ہے، اسطرح وہ ان کا مداوا جانتے ہیں اور ان کے اسباب و علاجیں ڈونڈنے میں مشکل محسوس نہیں کرتے مگر برطانیہ کا آئین اس قدر پیچیدہ ہے کہ وہ قوم یہ معلوم کرنے کے قابل ہوئے بغیر کہ خرابی کس میں ہے برسوں تک مصیبت بھگت سکتے ہیں۔ کچھ کہنگے کہ خرابی یہاں ہے باقی کہنگے کہ وہاں ہے اور ہر سیاسی طبیب اس خرابی کے لئے ایک الگ دوا تجویز کرے گے۔

برطانیہ نے آئینی پیچیدگیوں کا مسلئہ ہمارے لئے بھی چھوڑا ہے۔ ہمارے آئین میں بہت سی شقیں جوں کے توں یا توڑی سی ترمیم کے ساتھ وہی برطانوی قانون کے ہیں۔ تھامس پین ایک اور جگہ لکھتا ہے کہ تخلیق کے لحاظ سے سارے انسان آغاز میں برابر ہوتے ہیں۔ اس برابری کو صرف بعد میں آنے والی کوئی صورتحال ہی برباد کرسکتی ہے۔ اس سلسلے میں امیری اور غریبی کے فرق کو سب سے زیادہ گردانا جاتا ہے۔

استبداد اور حرص کے کھردرے اور برے لگنے والے نام بھی گردانے جاتے ہیں۔ استبداد عموما دولت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ اس کا ذریعہ شاذ و نادر ہوتا ہے۔ یا کبھی بھی نہیں ہوتا۔ اور گو حرص کسی شخص کو لازما غریب ہونے سے بچاتا ہے۔ مگر یہ عموما اسے دولتمند ہونے سے زیادہ ڈراتا ہے۔ مگر ایک اور بڑا فرق بھی ہے۔ جس کیلئے کوئی فطری یا مزہبی سبب مقرر نہیں کیا جاسکتا وہ ہے۔

انسانوں کی بادشاہوں اور رعایا میں تقسیم نر اور مادہ تو فطرت کے امتیاز ہے، اچھا اور برا آسمان کے دئیے ہوئے امتیاز ہے۔ مگر اس بات کی تحقیق ہونی چاہئے کہ دنیا میں انسانوں کی نسل (بادشاہوں کی) کس طرح بقیہ انسانوں سے اس عالی مقام پر آئی اور ایک نئی نسل و نوع (species) کی طرح ممتاز ہوئی۔ یہ تحقیق بھی ہونی چاہئے کہ آیا وہ بنی نوع انسان کیلئے خوشی کا وسیلہ ہے یا دکھ اور بربادی کا۔

مزہب کے تاریخ کے مطابق شروع شروع میں دنیا کے اندر بادشاہوں کا وجود نہ تھا۔ اسی لئے جنگیں نہ تھیں یہ بادشاہوں کا تکبر ہے جو بنی نوع انسان کو مصیبت میں ڈالتا ہے۔ ہالینڈ کسی بادشاہ کے بغیرہ اس آخری صدی میں یورپ میں کسی بھی شاہی حکومت سے زیادہ امن کے مزے لوٹتا رہا۔ قدیم زمانہ اسی رائے کی حمایت کی گواہی دیتا ہے۔

تھامس پین نے ایک اور جگہ لکھا ہے کہ بادشاہت کی برائی میں ہم نے موروثی جانشینی بھی ڈال دی ہے اور جس طرح بادشاہت ہم کو ہمارے اپنے ہاتھوں سے ذلیل اور کمتر بناتی ہے۔ اسی طرح موروثی جانشینی بعد کی آنے والی نسل کی توہین ہے۔ چونکہ سارے انسان آغاز میں برابر ہے اسلئے کسی کو بھی پیدائشی طور پر یہ حق نہیں ہے کہ وہ ذاتی طور پر اپنے خاندان کو تمام دوسروں پر ہمیشہ کیلئے مسلسل ترجیح دے۔

وہ لکھتا ہے کہ یہ فرض کرنا حقیقت سے حالی ہے کہ بادشاہوں کی موجودہ نسل کی کوئی ابتدا تھی۔ ہم اگر عہد قدیم کے تاریخ سے پردہ اٹھائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ وہ کسی بے آرام بدمعاش گینگ کے سربراہ سے کسی طرح بھی بہتر نہیں تھا۔ جس کے دوسروں سے زیادہ مکارانہ سفاک طریقوں نے اسے ڈاکو سے چیف کا نام دلایا۔ اس نے طاقت میں اضافے اور اپنے لوٹ کھسوٹ کو توسیع دیتے ہوئے۔

خاموش اور بے دفاع انسان کو بار بار کے چندوں کے ذریعے اپنی خفاظت خریدنے پر خوف دلایا۔ تھامس پین کے زمانے میں پوری امریکی قوم برطانیہ کا غلام بن چکی تھی اور وہ اپنی مستقبل کی روشنی برطانیہ کی گود میں ہی دیکھتے تھے۔ لیکن اسی اثنا میں تھامس پین نے امریکیوں کو سخت لہجے میں اس روش سے ہٹنے کی ترغیب دی۔ وہ لکھتا ہے کہ میں نے کچھ لوگوں کو اس بات پر زور دیتے ہوئے سنا کہ۔

چونکہ غلام امریکہ برطانیہ کے ساتھ اپنے سابقہ غلامی والے تعلق کی بنا پر ترقی کرچکا ہے۔ اسلئے وہی تعلق اس کی مسقبل کی تعلق کیلئے بھی ضروری ہے۔ اس طرح کی دلیل سے زیادہ گمراہی کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ ہم بھی زور دے سکتے ہیں کہ ایک بچہ گوشت کی بجائے دودھ پر پلا بڑھا ہے یا یہ کہ ہماری زندگی کے اولین بیس برس اگلے بیس برس کیلئے قابل تقلید ہونگے، اس کے لئے میں صاف صاف جواب دیتا ہوں کہ غلام امریکہ اتنا ہی ترقی کرتا۔

اور شائد اس سے بھی زیادہ اگر کوئی یورپی طاقت اس کو اسی حال پہ رہنے دیتی۔ یہ بات امریکیوں نے آنے والے زمانے میں ثابت بھی کیا جیسا کہ ہم اج اس کو سپر پاور کے نام سے جانتے ہیں۔ تھامس پین آگے ان لوگوں کو اس طرح جواب دیتا ہے۔ جو کہتے ہیں کہ برطانیہ نے ان کی حفاظت کی اور ان کی دفاع کی کہ ہم نے برطانیہ کی طرف سے حفاظت کی ڈینگیں ماری ہیں یہ سوچے بغیر کہ اس کی غرض مفاد تھا نہ کہ پیار۔

اور دوسرا یہ کہ برطانیہ نے ہماری دشمنوں سے ہماری حفاظت ہمارے خاطر نہیں کی، بلکہ اپنی دشمنوں سے اپنی خاطر کی۔ اگر برطانیہ غلام امریکہ پر اپنے دعوؤں سے دست بردار ہوتا تو ہم سپین و فرانس سے امن میں ہوتے۔ کیونکہ وہ تو برطانیہ سے جنگ میں مصروف ہوتے۔ بہرحال تھامس پین کے خیالت سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ برطانیہ سے سخت نالاں تھا اور اس کی وجہ برطانیہ کا زیر قبضہ علاقوں پر مفاد پرستانہ حکرانی تھی۔

برطانیہ نے جو رویہ امریکہ اور دیگر نو آبادیاتی علاقوں سے روا رکھا وہی رویہ برصغیر کے لوگوں خصوصا مسلمانوں سے بھی رکھا۔ برطانیہ نے جسطرح اپنے مفادات کی خاطر امریکیوں کو یورپی ممالک کے ساتھ جنگوں میں دھکیل دیا تھا۔ اسی طرح سلطنت عثمانیہ کو بھی اپنے مفادات کے خاطر جنگ عظیم اول کے معرکوں میں دھکیلا، جس کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر گیا۔

Check Also

Kya Pakistani Adalaten Apne Daira e Kar Se Tajawuz Karti Hain?

By Imran Amin