1.  Home
  2. Blog
  3. Yaseen Malik
  4. Thomas Paine Ki Batein (1)

Thomas Paine Ki Batein (1)

تھامس پرنس کی باتیں (1)

حصولِ آزادی کیلئے جدوجہد کرنے والوں میں ایک نام برطانیہ کے تھامس پین کا بھی ہے۔ جو 1737ء کو برطانیہ میں پیدا ہوئے۔ تاریخ میں اس نے اپنا کردار ایک ایسے عظیم مفکر و مصنف کے طور پر ادا کیا، جو غلامانہ زندگی کے سمندر کے بے رحم موجوں سے ٹھکر لے لے کر عقل و شعور کے ستون کھڑا کرکے ان موجوں کا زورِ بازو ٹوٹنے کی کوشش کرے۔

اس زمانے میں برطانیہ کا دنیا کے ایک بڑے خطے پر سلطنت تھی۔ جو اس کی نو آباد خطے تھے۔ لیکن تھامس پین کے مطابق اس تمام خطے پرصرف بادشاہ ہی حقیقی آزادی کی زندگی گزار رہا تھا۔ اور دوسرے نمبر پر بڑے بڑے جاگیر دار اور ملا (پاپ) طبقہ، باقی سارے عوام غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ تھامس پین نے برطانیہ کے ان ہی ظالمانہ کردار سے تنگ آکر 1774ء میں آبائی ملک کو خیرآباد کہہ دیا اور امریکہ پہنچا۔

امریکہ بھی اس وقت برطانیہ کے زیرِ تسلط تھا۔ یہاں آکر تھامس پین نے امریکیوں کے ضمیروں کو جھنجوڑنے اور غلامی سے آزادی دلانے کیلئے عقل کی کھونجیوں کو کھولنے اور خون کو تپش دینے والے تحاریر لکھے۔ جس میں ایک کتابچہ "کامن سینس" بہت مشہور ہوا۔ اس کتابچے میں تھامس پین سیدھے سادھے عام عوام سے محاطب ہے۔ کامن سینس نے امریکیوں میں خون کی ایک نئی لہر مرتعش کی۔

اس کی اہمیت کا اندازہ اپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ اس کے بارے میں جام ایڈمز یہ لکھنے پر مجبور ہوا کہ " کامن سینس کے مصنف کے كالم کے بغیر جارج واشنگٹن کی تلوار بس یوں ہی ہوا میں لہراتی رہتی۔ ڈاکٹر شاہ محمّد مری نے بہت خوبصورت انداز میں اس کا اُردو ترجمہ بھی کیا ہے۔ آج ہم قارئین کے لئے کامن سینس سے کچھ اقتباسات تحریر کرینگے۔

تو تھامس پین کامن سینس میں ایک جگہ حکومت کے اہداف اور مقاصد کے تصور کو سمجھانے کیلئے ایک مثال پیش کرتے ہیں۔ جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سماج پہلے پہل کسے وجود میں آتا ہے، اور پھر یہی سماج اپنے آپ کو قانون و حکمرانی کے زیر تسلط لانے میں کن محرکات کے بنا پر مجبور ہوجاتی ہے۔ تھامس پین لکھتا ہے کہ آئیے ہم لوگوں کی ایک چھوٹی تعداد کا تصور کریں۔

جو باقی لوگوں سے دور ایک الگ تھلگ خطے میں آباد ہے۔ گویاں کہ وہ دنیا کے اولین انسانی آبادی کی نمائندگی کرتے ہو۔ قدرتی آزادی کی اس حالت میں ان کا پہلا خیال سماج کے قیام کا ہو گا۔ ایسی ہزاروں وجوہات ہونگی جو ان کو سماج کے قیام پر مجبور کرےنگے۔ ایک آدمی کی طاقت اس کی ضروریات کے نسبت کم غیر مساوی ہے، اور اس کا ذہن ابدی تنہائی کیلئے اس قدر غیر موزوں ہے کہ وہ جلد ہی ایک اور انسان کی مدد طلب کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

اور وہ دوسرا انسان بھی اسی کچھ کا ضرورت مند ہوتا ہے۔ یہ چار پانچ ملے ہوئے اشخاص ایک بیابان میں ایک مسکن کھڑا کرتے ہیں۔ ایک شخص بذات خود محنت کرنے کے باوجود کچھ نہیں کر پاتا۔ جب وہ درخت کا تنا کاٹ کر گراتا ہے، تو اسے اکیلے ہٹا نہیں پاتا اور اگر اکیلے ہٹا بھی دے تو اسے سیدھا کھڑا نہیں کرپاتا۔ اس لمحے بھوک اسے کام چھوڑ دینے پر مجبور کر سکتا ہے۔ اور ہر مختلف ضرورت اسے مختلف انداز میں پیش آسکتی ہے۔

(اس دوران اس شخص کیلئے) بیماری کو تو چھوڑیئے بدبختی بھی موت ہو گی۔ اسلئے کہ خواہ بیماری اور بدبختی اسے موت نہ بھی دیتی ہو پھر بھی اسے بے حس تو بنا دیتی ہے۔ اور اسے ایک اسی بدتر حالت تک پہنچا سکتی ہے۔ جس میں وہ موت سے زیادہ برباد ہوسکتا ہے۔ لہذا یہی مجبوریاں ایک کششِ ثقل کی قوت کی طرح ہمارے ان نئے تارکین وطن کو ایک سماج میں بدل دےگی۔

جن کی باہم دیگر نعمتیں حکومت اور قانون کی پابندیوں کی ضرورتوں کو ختم کردے گی۔ (اور ان کو اس وقت تک حکومت و قانون کی ضرورت نہیں پڑےگی) جب تک وہ لوگ ایک دوسرے سے مکمل طور پر منصفانہ رہے۔ مگر چونکہ صرف اور صرف آسمان بدکاری اور گناہ سے پاک ہے۔ لہذا ناگزیر طور پر ایسا ہو گا کہ جونہی وہ مہاجرت کے ان اولین مشکلات پر قابو پالیں گے۔

اسی تناسب سے وہ اپنے فرض اور ایک دوسرے سے وابستگی سے سست ہونا شروع ہو جائے نگے اور ان کی یہ غفلت ان کی اخلاقی نیکی کو کمزور کرنے کے لئے اسباب مہیا کرےگی۔ جو حکومت کی کسی شکل کی قیام کی ضرورت کی طرف اشارہ کرےگی۔ کوئی بڑا سایہ دار درخت انہیں ایک سٹیٹ ہاوس مہیا کر سکے گا۔ جس کی شاخوں کے نیچے ساری آبادی جمع ہوکر عوامی معاملات پر بحث و فکر کرسکےگی۔

ان کے اولین قوانین فقط ہدایات کا نام پائے نگے اور وہ قوانین عوام کی بے توقیری کی کسی سزا کے بغیر لاگو نہ ہونگے۔ اس اولین پارلیمنٹ میں قدرتی حق کے ذریعے ہر ایک شخص کا ایک ووٹ ہوگا۔ مگر جوں جوں آبادی بڑھتی جاتی ہے۔ اسی نسبت سے عوامی مسائل بڑھتے جائے نگے اور وسیع آبادی میں افراد کی رہائش گاہوں کے بیچ فاصلہ بڑھتا جائےگا۔

ان سب کیلئے پہلے کی طرح ہر موقعہ پر ملنا مشکل ہوجائےگا یہ ان کو اس بات پر متفق ہونے کی طرف لے جائےگا کہ آئین سازی کا انتظام لوگوں میں سے ایک منتخب شدہ تعداد کے سپرد کی جائے۔ جن کے پاس وہی مسائل ہو جو کہ ان کے ان ہی لوگوں کے پاس ہوتے ہیں۔ جنہوں نے انہیں منتخب کیا۔ اگر آبادی اپنی بڑھوتری جاری رکھتا ہے، تو نمائندوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔

نیز آبادی کے ہر حصے کے مفادات کا خیال رکھنے کیلئے سارے مجموعے کو باسہولت حصوں میں تقسیم کرنا ضروری ہو گا۔ ہر حصہ پارلیمنٹ میں اپنی مخصوص تعداد بھیجے گا۔ منتخب شدہ لوگ عام لوگوں سے کوئی الگ مفاد نہیں بنائے نگے۔ یہ پارلیمنٹ الیکشنوں کے بار بار ہونے کو عقلمندی تصور کرے گی۔ اسلئے کہ اس طرح منتخب شدہ لوگ چند ماہ کے بعد دوبارہ اپنے منتخب کرنے والے لوگوں میں آجائیں گے۔

اور ان کے ساتھ دوبارہ گھل مل جائیں گے۔ عوام کو ان کی فرض شناسی اس بات سے معلوم ہوگی کہ وہ عوام کیلئے ڈنڈا استعمال نہ کرے۔ اور جوں جوں منتخب شدہ لوگ کمیونیٹی کے ہر حصے کے ساتھ ایک مشترک مفاد قائم کرے گی، تو وہ فطری طور پر ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔ اور اسی عمل پر "حکومت کی قوت" اور "عوام کی خوشی" انحصار کرےگی نہ کہ بادشاہ کے بے معنی نام پر۔

(جاری ہے)

Check Also

Siasat Se Pehle Riyasat

By Umar Khan Jozvi