1.  Home
  2. Blog
  3. Yaseen Malik
  4. Siasat Dano Ke Naam

Siasat Dano Ke Naam

سیاستدانوں کے نام

سنا ہے آج سے ستر سال پہلے دنیا کے کسی کونے میں غالباً براعظم جنوبی ایشیا میں مسلمانوں نے ہندوؤں اور انگریزوں سے تنگ آ کر ایک خود مختار زندگی گزارنے کا خواب دیکھنا شروع کیا۔ خود مختار سے ان کا مطلب یہ تھا کہ اس کو ایک ایسی پلیٹ فارم میسر ہو سکے جہاں وہ نہ صرف مزہبی بلکہ سماجی، معاشی اور اقتصادی لحاظ سے بھی وہ اپنے فیصلوں اور روزمرہ کے معاملات میں خود مختار ہو اور ان پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی نہ ہو۔

اس مقصد کے حصول کیلئے ان لوگوں نے ایک الگ ریاست کا مطالبہ شروع کیا۔ یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ ان کی اس جدوجہد میں ایک ایسے انسان نے ان کی رہنمائی کی جو دانش مندی، موقع شناسی، نکتہ سنجی، حاضر دماغی اور فہمیدگی وغیرہ کے اوصاف سے ممتاز تھے۔ سنا ہے اس کا نام محمد علی تھا اور چونکہ انہوں نے اس قوم کی بہتر انداز میں رہنمائی کی تھی اس لئے یہ بھی سنا ہے کہ اسے قائداعظم کے نام سے شہرت ملی۔

سنا ہے کہ اسی قائداعظیم کی رہنمائی میں ان مسلمانوں نے جو خواب دیکھا تھا تعبیر میں بدل گیا اور ساتویں مہینے کی چودہ تاریخ اور سال انیس سو سینتالیس کو پاکستان کے نام سے ان لوگوں کیلئے الگ ریاست قائم کی گئ۔ لیکن بدقسمتی سے ان کا یہ عظیم رہنما فقط ایک سال کے بعد اس دنیا سے کوچ کر گیا اور یوں یہ قوم نہ ختم ہونے والی آزمائشوں کے سمندر میں دھکیلی گئ۔

جس کے بارے میں سنا ہے کہ اس کے بعد اس قوم نے اچھے دن شاذ و نادر ہی دیکھے اور ان کی وجوہات اس حطے پر حکمرانی کرنے والوں کی نااہلیاں، خود غرضیاں و انا پرستیاں، میں نہ مانوں، ون مین پاور اور پاٹیز بینی فیٹس وغیرہ بتائی جاتی ہیں۔ اس خطے پر حکمرانی کرنے والوں کے ایٹے چیوڈز اور بی ہیویئرز پر اگر ریسرچ کی جائے تو اپ کو یہاں لیڈر شپ سٹائلز کی ساری مثالیں آسانی کے ساتھ مل جائینگی جیسا کہ ڈیموکریٹک، آٹوکریٹک، لیزیس فیئر اور بیوروکریٹک وغیرہ بلکہ ممکن ہے کہ کچھ نئی اقسام بھی ہاتھ لگ جائے۔

سنا ہے کہ ان صاحبانِ اقتدار میں سے سکندر مرزا، ایوب خان، یحیٰ خان، ٹکا خان، ضیاالحق، غلام اسحاق خان، بینظیر بھٹو، صرف بھٹو اور مشرف وغیرہ کے نام مشہور ہے۔ سنا ہے کہ ان میں سے کچھ غضب کے صاحبِ فراست اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے بھی گزرے ہیں لیکن اپوزیشن، سسٹم اور بیورو کریسی وغیرہ کی وجہ سے اپنی صلاحیت کا اظہار نہ کر سکے یا اگر کر سکے تو بہت کم اور بس ان ہی وجوہات کی بنا پر سنا ہے کہ اب اس خطے پر حکمرانی کچھ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے جو اسی قوم کیلئے دیمک ثابت ہو رہی ہے۔

جاننے والے جانتے ہونگے کہ ان ہی لوگوں کی عاقبت نا اندیشانہ پالیسیوں کی وجہ سے اس قوم کا بچہ بچہ مقروض ہو چکا ہے۔ نوے کی دہائی سے لے کر آج تک ایسا بجٹ پیش نہیں کیا گیا جس کیلئے عالمی بنک، آئی ایم ایف اور دیگر دوست ملکوں سے قرض نہ لیا گیا ہو۔ لیکن اب تو یہاں تک سنا ہے کہ ان قرضوں پر جو سود ہے صرف اس کو ادا کرنے کیلئے اور قرضے لئے جاتے ہیں۔

سوچتا ہوں کہ اس قوم کی معیشت کا انحصار اگر ان اداروں کے قرضوں پر ہے تو فرض کرے اگر ان اداروں نے مزید قرض دینے سے انکار کیا تو اس کے بعد کیا ہو گا؟ شاید کہ اس صورت میں ہماری ایٹمی اثاثے عدم تخفظ کا شکار ہو جائے، شاید کہ اس صورت میں بیرون ملک سرمایہ کار بوریا بستر گول کر کے چلے جائے، شاید کہ چین بھی سی پیک راہداری سے ہاتھ اٹھا دے، شاید کہ اسٹیٹ بینک اور دیگر مالیاتی اداروں کا کنٹرول غیروں کے ہاتھوں میں چلا جائے۔

شاید کہ انڈیا بارڈر پر فوج لائے اور جمو تو کیا آزاد کشمیر اور گلگت بھی مانگنا شروع کر دے جیسا کہ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان ان خطوں پر ناجائز قبضہ جما چکا ہے۔ شاید کہ ٹی ٹی پی، بی ایل اے، اور دیگر تناظیم پھر سے انتہا پسندی کی فضا پیدا کرے۔ شاید کہ افغانستان میں وہ عناصر جو اس موقعے کی تلاش میں ہیں کہ کب موقعہ ملے تاکہ پاکستان سے بدلہ لیا جائے اس انٹرفیئرنس کا جو کئی دہائیوں سے وہ افغانستان میں کرتا آ رہا ہے۔

خدا ناخواستہ اگر یہ سب کچھ ہوا تو ہمارے یہ سیاستدان جس پر آج ہم تن، من، دھن قربان کر رہے ہیں بیرون ممالک میں خیمہ زن ہو کر تماش بین بن جائینگے۔ پھر یہاں اگر خون چوسا جاے گا تو عام آدمی کا، یہاں اگر عزت و ناموس پامال ہو گا تو عام آدمی کا، یہاں اگر مزدور کا گوشت سر بازار نیلام ہو گا تو عام آدمی کا، یہاں اگر فٹ پاتھوں پہ سونے پر مجبور ہو گا تو عام آدمی، یہاں اگر مال و جان کو خطرہ ہو گا تو عام آدمی کو۔

ہمارے ٹیکسوں پر پلنے والے ان حکمران سیاستدانوں کو تو نہ کل کسی قسم کا خطرہ تھا اور نہ آج ہے اور اگر ملک ڈیفالٹ کر جائے تو بھی اس پر کسی قسم کا اثر نہیں پڑے گا کیونکہ یہ آلریڈی اتنے اثاثوں کے مالک ہیں کہ اس پر ان کی پشتوں کے پشتیں عیش کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں۔ اور فرض کرے کہ ان کا احتساب ہو بھی جائے تو یہ اگر جیلوں میں بھی چلے جائے تو ان کی جیلوں میں بھی اتنی فیسلیٹیز ہوتی ہیں جو ہمارے مڈل اور لوور کلاس کے گھروں میں بھی نہیں ہوتی۔

یہ اگر ملک و قوم کے ساتھ سنجیدہ ہوتے تو آج ان نازک خالات میں یہ ایک دوسرے کا گریبان نہ کھینچتے بلکہ یہ مل بیٹھ کر کوئی منصوبہ بندی کرتے۔ ملک تباہی کے دہانے پر ہے لیکن یہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں لگے ہیں۔ ملک نزاعی صورتحال میں ہے اور یہ دوسرے کو نیچا دیکھانے میں لگے ہیں۔ لگتا ہے کہ عوام بھی ہوش کھو بیٹھے ہیں کہ ان سے پوچھ لے کہ جس مقصد کیلئے ہم نے اپ کو سلیکٹ کیا ہے اس پر تو بات تک نہیں کرتے اپ لوگ۔

کیا ہم نے اپ کو ووٹ اس لئے دیا کہ اپ اسمبلی میں یہ کہتے پھرے کہ معیشت کی تباہی میں گزشتہ حکومتوں کا ہاتھ ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ معیشت گزشتہ حکومتوں نے تباہ کی لیکن اب اپ کو ووٹ اس لئے دیا کہ گزشتہ غلطیوں کا مداوا کرے، ڈانواڈول معیشت کو سہارا دے، اپ کو ووٹ اسلئے نہیں دیا کہ اپ ہم کو ان کی خامیاں بیان کرے اس کی تو ہمیں خبر ہے تبھی تو ہم نے اس کو ووٹ نہ دیکر ریجیکٹ کیا۔

عوام اپ کو ووٹ اسلئے نہیں دیتی کہ اپ چیلنجز سے جان چھڑائے بلکہ عوام اپ کو ووٹ اسلئے دیتے ہیں کہ اپ ان چیلینجز کے باوجود ان کو ایکسپٹ کر کے کوئی ساکسیس فل پالیسیز بنائے۔ عوام نے اگر ووٹ دیا تو انیس سو بیانوے کے ورلڈ کپ جیتنے والے عمران خان کو نہیں دیا بلکہ دو ہزار اٹھارہ کے لٹیروں کا اختساب کرنے والے اور ملک کی خالات کو نوے دن کے اندر اندر صحیح موڑ پہ لانے والے عمران خان کو دیا۔

سیاستدان کوئی بھی ہو عوام اس کو ووٹ اسلئے دیتے ہیں تاکہ وہ ان کے مفادات کا حیال رکھے اور آج من حیث القوم ہمارا مفاد ملک کی معیشت کو سہارا دینا ہے سو آج جو بھی اقتدار پر بیٹھے گا عوام اس سے معیشت کو سہارا دینے کی توقع کرےگا۔

Check Also

Akbar Badshah, Birbal Aur Modern Business

By Muhammad Saqib