1.  Home/
  2. Blog/
  3. Yaseen Malik/
  4. Shair e Mashriq Ki Yaad Mein

Shair e Mashriq Ki Yaad Mein

شاعرمشرق کی یا د میں

شاعرق مشرق علامہ محمّد اقبال کی زندگی کے آخری آیام کا ایک واقعہ ہے کہ لوگوں کا ایک گروہ ان کے پاس آیا تو انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے چہرے پر بے چینی سی ظاہر ہورہی تھی اور وہ کچھ پریشان لگ رہے تھے لوگوں نے دریافت کیا کہ شیخ صاحب کیا وجہ ہے۔ آج اپ پریشان لگ رہے ہیں، انہوں نے دھیمے لہجے میں جواب دیا کہ آج ایک مسلمان نوجوان مجھ سے ملنے آیا تھا۔

اور وہ آنخضرت (ص) کو بار بار محمّد صاحب کہہ کر پکارتا تھا۔ اس نے مزید فرمایا کہ یہ دیکھ کر مجھے سخت آفسوس ہوا کہ جس قوم کے نوجوانوں کا یہ خال ہے۔ اس قوم کا انجام کیا ہوگا، علامہ محمّد اقبال پر کئی دنوں تک اس واقعے کا اثر رہا، سوچنے کی بات ہے کہ اقبال ایک نوجوان کے اس طرح کے رویے پر رنجیدہ اور پریشان تھے اور کئی دنوں تک اسی فکر میں تھے کہ اگر نوجوانوں کا یہ خال ہو تو اس قوم کا انجام کیا ہوگا۔

وہ اقبال اگر اج ہوتے اور اج کے نوجوانوں کا خال دیکھتے تو کتنے غمگین اور پریشان ہوتے۔ آج کا نوجوان تو کئی لخاظ سے بے مروتی اور بد اخلاقی پہ اتر آیا ہے۔ آج کے نوجوان نے جہاں ایک طرف اللّه و نبی کے تعلیمات بھلا دئے ہیں، وہاں اس کے ساتھ شاعر مشرق مفکر اسلام علامہ محمّد اقبال کے تعلیمات کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ خون کے آنسوں رونے کا مقام ہے کہ اج وہ نوجوان دنیا کی اس عرضی رنگ و بو میں ڈوب چکا ہے۔ جس کیلئے علامہ اقبال نے کہا تھا۔

ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالیں ہیں ایرانی

لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی

اج کا نوجوان تو سر سے پاؤ تک تن آسانی کے مرض میں مبتلا نظر آتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اج وہ خواب غفلت میں ڈوبا ہے۔ تن آسانی کی مرض سے بچنے کیلئے مسیحا بن کر اقبال نے نوجوان نسل کو جو دوا دی تھی وہ خودی ہے، وہ اپنے اپ کو پہچاننے کا ہنر ہے، وہ دوسروں کے اشاروں پہ ناچنے کے بجائے جہدِ مسلسل اور ثابت قدمی کے شرف سے سرفراز ہوکر ہر جگہ اپنی لوہا منوانے کا نام ہے، وہ اللہ پر بھروسہ اور توکل ہیدا کرنے کی شرف ہے۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

مقام گفتگو کیا ہے اگر میں کیمیا گرہوں

یہی سوز نفس ہے، اور میری کیمیا کیا ہے

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اج کا نوجوان تو اقبال کے بتائے ہوئے خودی کی اس دوا سے بھی گھن محسوس کرتا نظر آتا ہے۔ آج کے نوجوان کو تو یہ پتہ بھی نہیں کہ خودی کیا ہے اور یہ کیسے اپنائی جاتی ہے۔ آج کا نوجوان یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ خودی ہی کی شرف تو تھی۔ جس سے سرفراز ہوکر علامہ اقبال نے مسلمانوں کی خلافت کو ٹوٹتے دیکھ کر اللہ سے کچھ اس انداز میں گریہ وزاری کی جس نے آسمانوں کو چھیر کے رکھ دیا۔

جس نے داروغہ جنت رضوان کو تفکر میں ڈال دیا، جس کو دیکھ کر فرشتوں میں بحث چھیڑ گئی کہ انسان بھی اتنا طاقتور تو ہو گیا کہ جس کی ایک خاک کی چٹکی آسمانوں کو چھیرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ وہ کون تھا جس نے خاک کی یہ چٹکی لکھی تھی؟ وہ سیالکوٹ کے کسی ویرانے میں چہل قدمی کرنے والا ایک سیدھا سادہ سفید پوش آدمی تھا۔ جس کا نام اقبال تھا اور جس نے خودی کا راز پایا تھا۔

لیکن پھر بھی مقام آفسوس ہے کہ اقبال کے اس دکھ بھرے الفاظ نے آسمانوں کو تو چھیر دیا، لیکن آج کے ٹیک ٹاک اور پاپ جی نسل کے نوجوان کا دل نہ چھیر سکا، اس نے داروغہ جنت کو تو تفکر میں ڈال دیا، لیکن واٹس ایپ اور فیس بک نسل کے اس نوجوان کو فکرمند نہ کرسکا۔ کیوں؟ اس کا جواب بھی اقبال کو مل گیا تھا۔

وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہنود

یہ مسلماں ہیں! جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود

آج نوجوانان اسلام نے مغرب کی تقلید اختیار کی ہے اور وہ اس پر فخر محسوس کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اج کا نوجوان مادہ پرست بن چکا ہے۔ امّتِ مسلمہ پر آج ٹوٹے ہوئے ظلم و جبر کے پہاڑ اس کے لئے تکلیف کا باعث نہیں، مغرب سے درآمد شدہ فتنے جیسے آنلائن گیمز ٹاک، فیس بک اور ہالی ووڈ موویز وغیرہ آج کے مسلمان نوجوانوں میں سرایت کرچکی ہے۔

اور اس میں رات دن مشغول ہونے کی وجہ سے اس کو وقت نہیں ملتا کہ وہ پڑھ سکے حلانکہ کسی بھی لائبریری میں ہزاروں بلکہ لاکھوں کتابیں ان کی منتظر ہے۔ مزید یہ کہ اقبال کے خودی کا نسخہ کتابوں میں نہیں تو اور کہاں ملے گی۔

Check Also

Netflix Ka Aik Naya Dramayi Silsila

By Nusrat Javed