1.  Home
  2. Blog
  3. Yaseen Malik
  4. Noha

Noha

نوحہ

پتہ نہیں گلستان کے ان پھولوں کو کس کی بددعا لگی ہے کہ ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں بلکہ سارے کہ سارے سوکھ چکے ہیں۔ اوپر سے بہار کی رُت ہے جو روٹھ کر الوداع کہہ چکا ہے اور منانے کے لئے تیار ہی نہیں۔ چہار سو فریاد کناں عندلیبوں کی آہ و فغاں ہے، آنسو ہے، دکھ و درد کی شکوہ سنجی ہے، نالے ہیں اور بے آسی ہے۔ آغوش میں وضع قطع کے پھول اور گلاب لئے ہوئے وہ گلستان اب کسی خرابے کا منظر پیش کررہا ہے۔ منظر پرستوں کی تو بس لاشیں نکلنا باقی ہے اور منظر کار متحیر اور سرگرداں ہے کہ اس منظر کی منظر آرائی کی شروعات کہاں سے اور کیسے کرے۔

افراتفری کا عالم ہے، ہر جگہ تہلکہ مچا ہوا ہے، ہر کوئی بدحواسی کی حالت میں ہے، ہر ایک اپنی دنیا میں مگن ہے، مفادات کی مقابلہ بازی ہے، مستقبل کی فکر ہے، حصول نام و ننگ اور حصول نان و نفقہ کی دوڑ ہے۔ مرد زن سے آگے نکلنے کی جستجو میں ہے اور زن مرد کو شکست یاب کرانے کی تگ و دو میں۔

بنت حوا پس افتادگی کے ڈر سے حصول علم و رزق کی ٹوہ میں ہے، ابن آدم بھی شدید فکری ژولیدگی میں ہے کہ کہیں وہ بھی اس دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائے۔

ایک دائمی آفت زدگی ہے جو ختم ہونے کا نام تک نہیں لینے کو تیار۔ ہر کسی نے اپنے لئے ایک الگ قبلہ کھڑا کیا ہے، ہر کوئی دوسروں کو زیر کرنے میں لگا ہے، ہر ایک خضر رہنما بننے کی خوابیدگی کا شاہد ہے۔ ہر کوئی اس زعم باطل میں گرفتار ہے کہ وہ ہی رہبر ہو، وہ ہی رہنما ہو، لوگ اس ہی کے قصیدے سنیں، اس کی ہی مدح سرائی ہو۔ ہر کسی کو کہنے سے لگاؤ ہے سننے کو کوئی بھی نہیں تیار، ہر ایک لکھنا چاہتا ہے پڑھنے کے لئے کسی کے پاس وقت نہیں، ہر ایک جیت کا خواب دیکھ رہا ہے ہارنا کوئی بھی نہیں چاہتا، سبھی کی تمنا اوروں کو متاثر کرنے کی ہے خود کسی سے متاثر ہوجائے یہ اس کی خمیر میں نہیں۔

واعظ کے سامنے سامعین اس لئے نشستن ہوتے ہیں کہ کل وہ بھی واعظ بنیں گے اور ان کی بھی سنی جائے گی۔ قاتل ہو کر بھی کوئی اپنے دامن پہ مجرم ہونے کا داغ برداشت نہیں کرسکتا، سزاوار ہوکر بھی قصور وار بننے سے دامن بچاتا ہے۔ جو دل میں آئے کر گزرتے ہیں جائز و ناجائز اور شرعی و غیر شرعی کا کانسپٹ زمین بوس ہوچکا ہے۔ نئی نسل کے لغات میں گنا و لغزش کے الفاظ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ جو کچھ عطا کیا گیا ہے اس سے بڑھ کر پانے کے متلاشی ہے صبر و قناعت تو قصہ پارینہ ہوچکا ہے۔

ہر کسی میں خود غرضی، اناپرستی، خود پسندی اور خود سرائی کا مادہ سر چڑہ کر بول رہا ہے۔ انبوہ کی اس کھینچا تانی میں فرشتہ مرگ جو گھات میں بیٹا ہے تیرِ قضا کے تیر دھڑا دھڑ برسا رہے ہیں لیکن پھر بھی کوئی باز آنے کو تیار نہیں حتٰی کہ اس میدان کارزار میں اس تیر بار فرشتہ اجل کے ہاتھوں ہم میں سے جو لاش گرتی ہے اس کو ہم اپنے ہاتھوں سے دفن کرتے ہیں لیکن پھر واپس آکر اسی رزم گاہ میں پھر سے انہی کھینچا تانی میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ کوئی بھی سدھرنے کو تیار نہیں۔

مولانا رومی لکھتے ہیں کہ ایک دن حضرت عیسٰیؑ کہیں جارہے تھے ایک شخص ان کے ساتھ تھا وہ بار بار ان سے کہتا کہ اے حضرت عیسٰی آج کسی مردے کو زندہ کیجئے۔

حضرت عیسٰی اسے اس خواہش سے روکتے۔ لیکن یہ شخص باز نہ آتا اسی اثنا میں اس نے ہڈیوں کا ڈھیر دیکھ لیا جو راستے کے قریب پڑا تھا بس پھر کیا تھا اس شخص نے خضرت عیسٰیؑ کا دامن پکڑ لیا اور بضد تھا کہ اسے زندہ کیجئے۔

عیسٰیؑ نے اس کی ضد دیکھ کر مجبور ہوگئے اور انہوں نے ہڈیوں کو حکم دیا کہ قُم بِاذن اللہ یعنی اللہ کے حکم سے زندہ ہوجا حضرت عیسٰیؑ کا یہ فرمانا تھا کہ ہڈیوں سے فوراً ایک دھاڑتا ہوا شیر اٹھا اور اس شخص پہ جھپٹا اور کچھ لمحوں میں اس کو چیڑ پھاڑ کر رکھ دیا۔

اس سے مولانا رومی نے ایک زبردست نتیجہ اخذ کیا ہے کہ انسان کی کتنی ہی ایسی خواہشات ہے جن کا تکمیل تک نہ پہنچنا رحمت اور ان کا پورا ہونا زحمت ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم جو ہے اسی کو دل سے تسلیم کرے، ہم جن نعمتوں سے نوازے جاچکے ہیں انہی پر قناعت اختیار کرے۔

ہم آج کو سنوارنے میں لگ جائیں کل کو خدا کے سپرد کرے، ہم اپنے خمیر سے خود غرضی، اناپرستی، خود پسندی اور خود سرائی کا مایہ نکال پھینک دے تاکہ ہماری زندگی سے بے چینی اور بے سکونی کی یہ بلا ٹل جائے اور اس گلستان میں بہار کی رت پھر سے لوٹ آئے۔

Check Also

Akbar Badshah, Birbal Aur Modern Business

By Muhammad Saqib