1.  Home
  2. Blog
  3. Yaseen Malik
  4. Mujhe Sukoon Chahiye

Mujhe Sukoon Chahiye

ًًمجھے سکون چاہیے

ایک شخص نے کسی بزرگ سے کہا کہ میں سکون چاہتا ہوں۔ بزرگ نے کہا کہ اپ اس جملے سے "میں" نکال دے کیونکہ یہ تکبر کی علامت ہے اور "چاہتا ہوں" بھی نکال دے کیونکہ یہ خواہش نفس کی علامت ہے۔ اور اب اپ دیکھ لے کہ اپ کے پاس صرف سکون ہی رہ گیا۔

دیکھنے میں تو یہ ایک چھوٹی سی بات لگتی ہے لیکن تہہ میں جانے سے معلوم ہوتا ہے کہ بزرگ نے سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر ہم نے تکبر کرنا چھوڑ دیا اور اپنی نفس کی پیروی چھوڑ دی تو ہم چین و سکون پا لینگے۔ یہ تکبر ہی تو ہے جس کی وجہ سے ہم دوسروں پر خود کر ترجیح دیتے ہیں۔

میں بڑا ہو کر ڈاکٹر بنوں گا، میں بڑا ہو کر یہ بنوں گا وہ بنوں گا، میں یہ کر سکتا ہوں، میں وہ کر سکتا ہوں، میں ایسا ہوں، میں ویسا ہوں وغیرہ سب میں پن کی مثالیں ہیں جو اپنے اپ کو دوسروں سے اعلی ظاہر کرنے کی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ جب اپ لفظ "میں " کو اپنی منہ سے ادا کرتے ہیں تو اس سے خود کے بارے میں خود بتانا مقصد ہوتا ہے اور یہ واقعی تکبر کی علامت ہے۔

تکبر کرنے والا شخص کسی بھی چیز کو کھونے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتا۔ وہ ہر میدان میں کامیابی چاہتا ہے اور ہار ماننا اس کی برداشت سے باہر ہوتا ہے لیکن ہار جیت اور پانا کھونا وغیرہ تو زند گی کی تاقابل تردید حقائق ہیں اور فطرت کا یہ قانون تو سب کیلئے ایک ہی ہوتا ہے سو ایسا شخص ہمیشہ بے سکون رہتا ہے کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ حالات ہمیشہ اپ کے فیور میں ہو پس ہر قسم کے حالات میں اپنا لوہا منوانے کا خواب دیکھنے والا جب غیر متوقع حالات کا سامنا کرتا ہے تو سخت مایوس ہو جاتا ہے اور اس کا سکون چلا جاتا ہے۔

تکبر اور عاجزی اپس میں متضاد ہے۔ اپ یا تو عاجزی اپنا کر تکبر کو چھوڑینگے اور یا عاجزی چھوڑ کر تکبر کا مظاہرہ کرینگے۔ اگر اپ نے پہلی صورت اپنائی یعنی عاجزی کو اختیار کیا تو اپ ہر قسم کے حالات میں خوش اور مطمئن رہ سکے گے۔ اس صورت میں حالات اپ کے توقعہ کے مطابق ہو یا نہ ہو اپ کو فرق نہیں پڑےگا اور جب اپ کو فرق نہیں پڑے گا تو اپ مایوسی محسوس نہیں کرینگے اور جب اپ مایوسی محسوس نہیں کرینگے تو پھر اپ پر سکون رہے گے۔

اور اگر اپ نے دوسری صورت اختیار کی یعنی عاجزی کے بجائے تکبر کو اپنایا تو فطرت کی ہار جیت اور کھونے پانے کے قانون کو دل سے تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہونگے۔ اور یوں جب اپ کی توقع کے خلاف حالات پیدا ہونگے تو اپ شدید مایوسی میں مبتلا ہونگے اور یوں اپ کا سکون ختم ہو گا۔ اسی طرح خواہشات بھی ہیں ہر انسان زندگی میں بے شمار خواب دیکھتے ہیں کوئی کہتا ہے کہ میں دولتمند بننا چاہتا ہوں۔

کوئی کہتا ہے کہ میں کامیاب بننا چاہتا ہوں، کسی کا کہنا ہے کہ میں آفسر بننا چاہتا ہوں، تو کوئی کہتا ہے کہ میں انجینئر بننا چاہتا ہوں وغیرہ یہ سب خواہشات ہی تو ہے جو نفس کی آواز بن کر زبان پر لفظوں کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ خواب دیکھنا بری بات نہیں لیکن ان خوابوں کو اپنے اپ پر سوار کرنا بھی عقلمندی نہیں۔ اپ اپنے خوابوں کو اتنا بھی اپنے دل و دماغ پر سوار نہ کرے کہ جس سے اپ کے حال کا سکون برباد ہو۔

خواب ضرور دیکھئے لیکن اتنی شدت سے نہیں جو اپ کے روزمرہ کے معمول پر اثر انداز ہو۔ خواب تعبیر میں تب بدلتا ہے جب اس کیلئے ان تھک محنت کی جاتی ہے خواب صرف دیکھنے سے تعبیر میں نہیں بدلتے۔ جب کوئی گھر بناتا ہے تو اس کیلئے کسی انجینئر کو بلایا جاتا ہے اور پھر یہ انجینئر گھر بنانے والے کے خواہش کے مطابق گھر کا نقشہ تیار کرتا ہے۔

یہ نقشہ ایک خواب ہوتا ہے جس کو عملی شکل دینے کیلئے بے شمار پیسے خرچ کرنے ہوتے ہیں، بنیادیں کھودنے والے، دیوار بنانے والے، مزدور، بڑھئی، الیکٹریشن اور رنگ سازوں وغیرہ کی خدمات لی جاتی ہیں تب جا کر انجینئر کا نقشہ عملی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اگر گھر کا مالک صرف خواب دیکھنے پہ اکتفا کرے تو یہ گھر قیامت تک بھی نہیں بن سکتا تھا لیکن اس کیلئے جب جدوجہد کی جاتی ہے تو خواب کو عملی جامہ پہنا چکا۔

بہرحال مزکورہ بالا بحث کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اگر ہم کو سکون چاہئے تو ہمیں تکبر کو چھوڑنا ہو گا اور نفس کی پیروی کو لگام دینا ہو گی تب ہمیں سکون ملے گا۔ ہمارے پاس جو کچھ ہے اسی پہ اکتفا کرے اور اس سے زیادہ کے حصول کا خواب ضرور دیکھے لیکن اتنا بھی شدت سے نہیں کہ جو ہاتھ میں ہے اس کی اہمیت ماند پڑ جائے۔ اللہ و نبی کے احکامات بھی ہمارے لئے یہی ہیں کہ ہمیں قناعت کو اختیار کرنا چاہئے۔ قناعت کا مطلب بھی یہی ہے کہ ہمارے پاس جو ہے جتنا ہے اسی پر شکر کرے۔

ہمیں اپنی نئی نسل کو فطرت کے ان قوانین کے بارے میں ذہن نشین کرانا ہو گا کہ ہمیشہ حالات متوقع نتائج جنم نہیں لیتے کھبی غیر متوقع نتائج بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ہمیں انہیں یہ بھی سیکھنا ہو گا کہ غیر متوقع حالات کے پیدا ہونے پر ہمیں بے صبری، غصے، اور نا امیدی کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئے بلکہ ان حالات میں ضبط کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور آئندہ کیلئے خود کو تیار رکھنا چاہئے۔

Check Also

Akhir Ye Majra Kya Hai?

By Tayeba Zia