Tuesday, 07 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Yaseen Malik/
  4. Mein Agar Pakistan Ka Wazir e Azam Hota

Mein Agar Pakistan Ka Wazir e Azam Hota

میں اگر وطن عزیز کا وزیراعظم ہوتا

یہ ممکن تو نہیں لیکن کسی کاہل اور کم چور انسان کی طرح میں بھی کبھی کبھار خیالی گھوڑے دوڑانا شروع کردیتا ہوں کہ اگر میں وطن عزیز پاکستان کا وزیراعظم بن جاؤں تو میری پالیسی کچھ یوں ہوگی۔

نوٹ: اس تحریر کو پڑھتے ہوئے اپنی ہنسی پر قابو رکھئے گا۔

میں اگر پاکستان کا وزیراعظم بن گیا ہوتا تو میرا پہلا کام یہ ہوتا کہ میں فوج کو سیاست سے مکمل طور پر الگ کردیتا۔ میں یہ قانون بناتا کہ چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری وزیراعظم نہیں کرےگا بلکہ وہ میرٹ اور صلاحیتوں کے بنیاد پر خود آئے گا۔ اس سے اقربا پروری اور سفارش وغیرہ کی بنیاد پر ایکسٹینشن کا مسئلہ ختم ہوجاتا۔

میں دوسرا کام یہ کرتا کہ اپوزیش کو ساتھ لے کر چلتا۔ کسی بھی معاملے میں اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر فیصلے سرزد کرتا۔ لیکن اگر اپوزیشن کو میرے فیصلے پر اعتراض ہوتا تو ان سے ان فیصلوں کا متوازن حل مانگتا۔

ملک کے اندر نفرت کی سیاست کو ختم کرتا اور قانون کے تخت اپوزیشن یا مقتدرہ پارٹی سے تعلق رکھنے والے کسی بھی عہدے دار کو مخالف پارٹی کے خلاف کسی بھی قسم کے الزامات اور غیر تہذیب یافتہ گفتگو کو ممنوع کرار دیا جاتا۔

جتنے بھی بیوروکریٹس ہیں ان کی تنخواہیں ایک 17 گریڈ کے آفسرز جتنی کردیتا اور ان سے تمام مراعات لے لیتا۔ اگر وہ ان شرائط پر ملک کی خدمت کرنے کے لئے تیار ہوتے تو بہتر، نہیں تو ان کو ہٹا کر اس ملک میں متعلقہ فیلڈز میں جو ماہر اور تجربہ کار لوگ جو بے روزگار ہیں ان کو ملک کی خدمت کرنے کی ترغیب دی جاتی اور ان کو بھرتی کرکے بیوروکریٹس کو باعزت طریقے سے گھر کا راستہ دکھایا جاتا۔ ان سے کہا جاتا کہ اگر آپ ملک سے مخلص ہوتے تو یہ کام تنخوا کے بغیر رضاکارانہ طور پر بھی سرانجام دے سکتے تھے۔

چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ گورنروں اور ہر فیلڈ سے متعلق دیگر ماہر اور تجربہ کار عہدے داروں پر مشتعمل سالانہ ایک میٹنگ منعقد کرواتا جس میں ہر صوبے میں جاری تعمیراتی کاموں پر بحث کی جاتی کہ کس صوبے میں کتنی پیش رفت ہوئی ہے اور کس صوبے کو کس مد میں کس صوبے کے ساتھ کو آپریشن کی ضرورت ہے نیز مستقبل میں آنے والے ممکنہ چلنجز سے نمٹنے کے لئے کس طرح کے اقدامات کئے جائیں۔ یہ میٹنگ وزیراعظم ہاوس میں اس کی کابینہ کی موجودگی میں منعقد ہوتی۔

دفاعی اخراجات میں خاطر خوا کمی کرتا جبکہ تعلیمی اخراجات میں خاطر خوا اضافہ کرتا۔ تعلیمی نظام کو غیرجانبدار اور ہائی کوالیفائڈ سٹاف کی موجودگی میں نئے سرے سے جدید طرز پر بناتا۔ کو ایجوکیشن کو سرے سے ختم کرتا۔ مردوں کے لئے سکولز، کالجز اور یونورسٹیاں الگ ہوتی جبکہ عورتوں کے لیے الگ۔ مردوں کے لیے مرد اساتذہ اور عورتوں کے لیے عورتیں بطور معلم ہائر کرنے کا انتظام ہوتا۔

اردو کو قومی اور دفتری زبان ڈکلیئر کرتا حتیٰ کہ کرنسی نوٹوں پر بھی انگریزی میں لکھے گئے الفاظ کو ختم کرتا۔ ہر ادارے کی فائلز اردو میں ہوتیں۔ عدالتی کاروائی اردو میں ہوتی۔ کس بھی ادارے میں بھرتی کا معیار اردو ہوتا نہ کہ انگریزی۔

انگریزی زبان کو فقط ایک لازمی سبجیکٹ کی حثیت حاصل ہوتی۔ پرائمری سطح پر فقط چھے سبجیکٹ ہوتے، اردو، اسلامیات، اخلاقیات، بنیادی سائنس، بنیادی میتھس اور ایک اور سبجیکٹ جس میں بچوں کو یہ سکھایا جاتا کہ حال اور مستقبل میں جو علم حاصل کرے اس کو ریئل لائف میں امپلیمینٹ کیسے کرنا ہے۔

خارجہ پالیسی میں ہر ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھتا۔ انڈیا کو کشمیر اس شرط پر حوالے کرتا کہ وہاں کے ذرائع جیسا کہ پانی وغیرہ پر پاکستان برابر کا حصہ دار ہوگا۔ انڈیا سے دوستانہ تعلقات ہوتے، لائن آف کنٹرول کو دونوں ممالک کے لیے کھول دیتا۔ پاکستان کے عوام تعلیم حاصل کرنے یا ٹوورز وغیر کے لئے آزادنہ انڈیا آتے جاتے اور انڈیا کے لوگ یہاں آزادانہ آتے جاتے۔

افغانستان اور ایران کے ساتھ فری آف ٹیکس کاروبار ہوتا۔ انڈیا کو وسط اشیاء میں جانے تک راستہ دیتا اور وسط اشیاء کے ممالک کو انڈیا میں جانے کا راستہ دیتا۔ البتہ ان سے ٹیکسز لی جاتی۔

امریکہ کے ساتھ زیرو بیسڈ تعلقات ہوتے اس کو کہا جاتا کہ ہم ملکی اور نیبرز ممالک کے امن و سلامتی کے حد تک امریکہ کی مدد کریں گے لیکن امریکہ سے کسی قسم کی مدد کی ضرورت نہیں۔

میں اسرائل کو تسلیم کرلیتا کیونکہ اسرائل سے ستر سالہ دشمنی مول لے کر ہم نے کچھ پایا نہیں بلکہ کھویا ضرور ہے۔ کھویا اس لئے ہے کہ بھارت نے پاکستان اسرائل دشمنی سے خوب فائدہ اٹھایا ہے اور اسرائل کو ہمیشہ پاکستان کے خلاف استعمال کیا ہے تو میں کسی بھی ملک کے لیے یہ موقع نہیں دونگا کہ اس سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کو نقصان پہنچائے۔

اسرائل کو تسلیم کرنے کی دوسری وجہ یہ کہ میں اسرائل کو ایک طرح سے امریکہ کے خلاف ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کرتا۔ امریکی اسرائلیوں کے اشاروں پر ناچتے ہیں تو اسرائل جب پاکستان میں سرمایہ کاری کرتا تو امریکہ پاکستان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا پاتا کیونکہ اسرائل بھی ان سے کہتا کہ یہاں ہمارے مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اسرائل سے کہتا کہ آپ سی پیک کی مدد سے چین کے ساتھ کاروبار وسیع کرسکتے ہیں۔

چین سے دوستانہ تعلقات برقرار رہتی لیکن ان تعلقات سے انڈیا اور امریکہ کو باور کرواتا کہ چین سے تعلق رکھنے پر ان کے ساتھ تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑےگا۔

ملک کے اندر وہ گروپس جو ملک کے خلاف مزاحمتی کارروائیوں میں مصروف ہیں کو پہلے تو عام معافی کا اعلان کرتا اس کے بعد مذاکرات ہوتے اور ممکن حد تک مذاکرات کی کامیابی کو یقینی بنایا جاتا۔

جاگیرداروں سے ساری زمینیں ضبط کی جاتی البتہ صرف سو ایکڑ تک زمین ان کی حوالگی میں ہوتی۔

جاگیرداروں سے جو زمینیں ضبط ہوتی ان پر ایک خاص شرح سے ٹیکس عائد کرکے ان کو ملک کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کو فی کس سو سو ایکڑ زمین دی جاتی اس شرط پر کہ اب وہ ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ لے نگے اور سالانہ کل پیداوار کا مخصوص شرع قومی خزانے میں جمع کریں گے۔

میں ملک کو بجٹ کے بغیر چلاتا کیونکہ پاکستان پر آج جتنا قرض چھڑا ہے وہ بجٹ ہی کی وجہ سے چڑھا ہے۔ جب آپ بجٹ پیش کرتے ہو تو اس میں آپ کو پتہ چلتا ہے کہ آپ کو مستقبل میں قرض لینا پڑے گا نہیں تو آپ اپنے خرچے پورا نہیں کرپائیں گے۔ لیکن بجٹ کے بغیر بھی ملک چلائے جاسکتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ میں ایسے منصوبے ملک میں نافذ نہیں کرتا جو مجھے قرض لینے پر مجبور کرتے۔

مجھے اس طرح کے میٹرو ٹرین کی کیا ضرورت جو مجھے آئی ایم ایف سے بھیک مانگنے پر مجبور کردیں۔ میٹرو ٹرین کے بغیر لوگ مر تھوڑے جائیں گے۔ اس طرح اور بھی بے شمار اسے خرچے ہیں جن کے بغیر ملک چل سکتا ہے تو ان خرچوں کو ختم کرتا۔ حتیٰ کہ اگر مجھے کرکٹ یا ہاکی کا ادارہ ختم کرنا پڑجاتا تو میں ختم کردیتا کیونکہ یہ خزانے پر اگر بوجھ ہونگے تو ان کی ضرورت نہیں البتہ مالی حالت بہتر ہونے پر ان کو پھر سے منظم کئے جاسکتے ہیں۔

میری پالیسی عوام دوست ہوتی اس لئے میں ہر وہ فیصلہ لیتا جس میں عوام کے لیے فائدہ ہی فائدہ ہوتا۔ میں ایٹم بم کو توانائی کے لیے استعمال کرتا اور اس سے زیادہ سے زیادہ بجلی بنانے کا منصوبہ بناتا۔

میں سکولز، کالجز اور یونورسٹیوں کو پابند کرتا کہ وہ اپنے سٹوڈنٹس سال میں ایک بھر ضرور متعلقہ فیلڈ کے جگوں کا دورہ کرائے مثلاً سافٹویئر انجینئرنگ کے سٹوڈنٹس کو مختلف سافٹویئر ہاوسزز کا دورہ، بنکنگ یا آکاونٹنگ کسی بنک یا آکاونٹ آفس کا دورہ وغیرہ تاکہ ان کو اپنے کام سے متعلق پریکٹیکل فیلڈ کا ادراک ہوتا۔ بہرکیف کچھ باتیں کسی اور نشست میں ہوگی انشاءاللہ ابھی کے لیے اب اپنی ہنسی روک لیجئے۔

Check Also

Netflix Ka Aik Naya Dramayi Silsila

By Nusrat Javed