1.  Home/
  2. Blog/
  3. Yaseen Malik/
  4. Khuda Ki Taraf Laute

Khuda Ki Taraf Laute

خدا کی طرف لوٹے

یہ ممکن تو نہیں لیکن فرض کریں ہم مان لیتے ہیں کہ سائنسدان نما انسان ایک دن آرٹیفیشیل ٹیکنالوجی کی بدولت اپنے جیسے انسان بنانے میں کامیاب ہوجائےگا۔ ہم یہ بھی مان لیتے ہیں کہ انسان ایک دن اپنی دماغی صلاحیتوں کے بنا پر چاند، مریخ اور دوسرے سیاروں پر زندگی کی موجودگی کو ممکن بنانے میں بھی کامیاب ہوجائے گا، ہم یہ بھی مان لیتے ہیں کہ انسان ایک دن ٹیکنالوجی کی بدولت ماضی، حال اور مستقبل میں جانے کی صلاحیت بھی حاصل کرلےگا۔

ہم یہ بھی مان لیتے ہیں کہ انسان ایک دن یہ علم بھی حاصل کرلے گا کہ دنیا کتنی پرانی ہے اور دنیا پر آج تک کل کتنی قومیں گزریں ہیں، انسان یہ علم بھی حاصل کرلےگا کہ کل کا انسان رسم و رواج، معاشی حالات، مذہبی اور معاشرتی اقدار، فنون لطیفہ اور طرز معاشرت وغیرہ میں آج کے انسان سے کیسے مختلف تھا۔ ہم یہ بھی مان لیتے ہیں کہ ایک دن انسان ہر قسم کی بیماریوں پر قابو پالے گا اور شرح اموات میں حد درجے کی کمی واقع ہوگی۔

العرض انسان وہ سب کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائےگا جو آج اس کے لیے محض خواب ہے۔ یہ تو چھوڑیئے ہم یہ بھی مان لیتے ہیں کہ انسان ایک دن ترقی کی اس نہج پر پہنچ جائے گا کہ وہ ایسے روبوٹس بنانے لگے گا کہ وہ کچھ نیا سوچے اور تحقیق کرے اس لیے کہ انسان نے تو وہ سب کچھ حاصل کرلیا ہے جو کچھ وہ سوچ سکتا تھا تو اب کچھ نیا سوچنے کی ضرورت محسوس ہوگی۔

لیکن پھر بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج کے انسان کا مقصد تو ان تمام مسائل پر قابو پانا ہے لیکن جب انسانی تہذیب عروج و ترقی کے اس آخری دہانے پر کھڑی ہوجائے گی کہ یہ سارے مسئلے حل ہو تو اس وقت انسان کی زندگی گزارنے کا مقصد کیا ہوگا؟ انسان جو سوچے گا وہ من و عن ہو توجائے گا لیکن اس کے بعد وہ جی کس مقصد کے لیے رہا ہوگا؟ اس کے آگے کونسے ایسے مقاصد ہونگے جس کے حصول کے لیے وہ دن رات محنت کر رہا ہوگا کیونکہ سب کچھ تو اس کے سامنے اس کی ایک جنبش آبرو پر موجود تو ہو رہاہوگا لیکن پھر بھی وہ کس چیز کے لیے پریشان ہو رہا ہوگا۔ کون سی چیز اس کو نیند کرنے نہیں دے رہا ہوگا؟

کیا اس وقت بھی یہی مسائل ہونگے جو آج ہیں یعنی روزی روٹی کی فکر، معیاری تعلیم کے حصول کی فکر، ملازمت کی فکر، اولاد کے تعلیم و تربیت کی فکر وغیرہ۔ کیا اس وقت بھی انسان کو اپنے بیٹی کے جہیز کا فکر ہوگا؟ کیا اس وقت بھی عورتوں کی آزادی کا فکر ہوگا؟ کیا اس وقت بھی ذہنی و جسمانی ہراسگی پر قابو پانے کی جستجو ہوگی وغیرہ؟

اگر ایسا ہے تو سائنس و ٹیکنالوجی کا ترقی کے ان منازل کو طے کرنے کا فائدہ کیا ہوگا اور اگر ایسا نہیں ہے بلکہ یہ سارے مسئلے بھی حل ہوئے ہونگے تو پھر بھی ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے بعد بھی انسانوں کے زندگی گزارنے کا مقصد کیا ہوگا۔ کیا اس وقت انسان بس عیش و عیشرت ہی میں زندگی گزار رہا ہوگا اور اگر یہ سچ ہے کہ واقعی انسان بس عیش ہی عیش منائےگا تو انسان کی جو نیچر ہے کہ وہ آئے روز رونما ہونے والے یکساں حالات سے اکتا جاتا ہے۔

کیا انسان اس انتہا درجے کی آزادی سے اکتا تو نہیں جائے گا۔ اگر اکتا گیا تو پھر انسان کے پاس اس کا حال کیا ہوگا کیا وہ اس کا حال اس میں تو نہیں سمجھے گا کہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بیابانوں، ریگستانوں اور جنگلوں میں زندگی بسر کرنے کو حالات کا تقاضا سمجھے۔ کیا سکون کی تلاش میں انسان دی گریٹ کریئٹر یعنی خدا کی تلاش میں تو نہیں نکل کھڑا ہوگا اور اس وقت تو مذہب کا نشان انسان کے انفرادی اور اجتماعی زندگی سے مٹ چکا ہوگا تو کیا اس وقت کا سب سے بڑا چیلنج خدا کی طرف لوٹنا تو نہیں ہوگا۔

تو اگر خدا کا احساس انسان کو اتنے پاپڑ بیلنے کے بعد ہونا ہے تو کیوں نہ کہ آج ہی وہ خدا کی طرف لوٹ جائے اور اس کو پائے تاکہ سکون حاصل ہو۔ ایسا نہ ہو کہ خدا کا احساس ہمیں تب ہوجائے جب وہ ہم سے پوری طرح ناراض ہوچکا ہو۔

Check Also

Ahal e Riwayat Aur Kar e Tajdeed

By Muhammad Irfan Nadeem