1.  Home
  2. Blog
  3. Yaseen Malik
  4. Kamyabi Ka Miyar

Kamyabi Ka Miyar

کامیابی کا میار

کائناب کی اس تصویر میں کسی بھی انسان اور دیگر موجودات کا ایک اہم کردار ہے اور ان میں سے ایک ہی اگر منظر سے ہٹادیا جائے تو تصویر نامکمل نظر آئے گا۔ اپ جھاڑو دینے والوں میں سے ہیں یا دروازہ کھولنے والوں میں سے، اپ سلیوٹ کرنے والوں میں سے ہیں یا قطاروں میں انتظار کرنے والوں میں سے، اپ لیڈر ہے یا اس کے اشاروں پر ناچنے والوں میں سے، اپ ہی سے اس نظامِ کائنات کی تصویر مکمل ہے اور اپ ہی کامیاب انسان ہے۔

البتہ اگر ہم نے کامیابی کا معیار یہ ٹھرایا جس کا نیچے ذکر ہونے والا ہے تو پھر ہم سارے ناکام ہے صرف لیڈر لوگ ہی کامیاب ہیں۔ یہ اج سے ساتھ آٹھ سال پہلے کی بات ہے ہمارے استاد صاحب نے کلاس کے سامنے والے دیوار پر لگی تصویر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولے اس کی باتوں میں سنجیدگی تھی۔ اپ اس سامنے والی تصویر کو دیکھئے جس میں مصوّر نے قدرت کی کچھ ایسی منظر کشی کی ہے۔ جو دیکھنے والوں کی نگاہیں کھینچ لیتی ہیں۔

ہم سب نے اس تصویر کی طرف دیکھا، جو واقعی ایک دلکش تصویر تھی۔ جس میں پورب کی طرف سے آسمان پر کالی گھٹائیں دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ ابھی کچھ ہی لمحوں میں زور کا مینہ برسنے والا ہے۔ اور اسی کیفیت میں نیچے خانہ بدوشوں کی جھونپڑیاں اور ان جھونپڑیوں کے آس پاس کے لوگ دیکھ کر اس بات کا احساس ہوتا تھا کہ یہ لوگ بارش کے آنے پر خود کو سنھبالنے میں لگے ہیں۔

اور مال مویشیوں کو جلد بازی میں ہانک رہے ہیں تاکہ اس کو کسی محفوظ مقام پر پہنچایا جاسکے۔ تصویر میں پہاڑوں کے اوپر اڑتے پرندے دیکھ کر بھی ایسا محسوس ہوتا تھا۔ جیسے یہ بھی بارش سے بچنے کے لئے اپنے گھونسلوں کی جانب محو پرواز ہے۔ ہم ان ہی خیالوں میں گھوم تھے کہ استاد صاحب پھر بولے، ہتھوڑی کی ضربیں کیل نے برداشت کئے، عمر بھر کا بوجھ اٹھایا کیل نے لیکن قصیدے اس تصویر کی پڑھی جاتی ہے۔

ہم سب نے حیرانی کی عالم میں استاد صاحب کی طرف دیکھا اور تصویر سے متعلق ہمارے ذہنوں میں خیالات کی جو لہر اٹھی تھی وہ فوراً اس طرح ٹوٹی جس طرح کسی بٹن کے آف کرنے سے بجلی کی تاروں میں کرنٹ کی لہر ٹوٹ جاتی ہے۔ استاد صاحب روانی سے بول رہے تھے۔ اب یہ اپ لوگوں پہ ڈی پینڈ کرتا ہے کہ اپ خود کو کیل بنانا پسند کرتے ہیں۔ جو بے جا مشقت اٹھاتی ہے یا تصویر جس کی ہر کوئی تعریفیں کرتا ہے۔

یہ میرے استاد صاحب کے الفاظ تھے۔ جو انہوں نے ایک دن ہم طالب علموں سے ایک کلاس کے دوران کہیں تھیں۔ ان الفاظ نے ہم پر شدید اثر کیا اور یہ انہی الفاظ کا نتیجہ تھا کہ آنے والے ایگزام میں ہمارے کلاس کے طالب علموں کے مارکس باقی کلاسز والے طالب علموں سے زیادہ تھیں۔ مجھے تسلیم کرنا ہوگا کہ استاد صاحب کے یہ الفاظ اس وقت موقع محل کے مناسبت سے بجا تھیں۔

جس نے مثبت اثر ڈالا لیکن اب میں سوچتا ہوں کہ اگر ہم سب تصویر بننے کی کوشش کرے نگے، تو ایسا کون ہو گا۔ جو سماج میں کیل کا بھی کردار ادا کرے۔ اگر ہم سارے ہی تصویر بن گئے، تو ان تصویروں کو دیوار پر نصب کرنے کیلئے سہارا کہا سے لایا جائےگا۔ ایک دن ویڈیو میں ایک موٹیویٹر کو دیکھا، جو سامنے بیٹے سامعین کو لیڈر بنانے کیلئے نا صرف موٹیویٹ کر رہا تھا۔

بلکہ اچھے لیڈر کی خوبیاں بتا کر کہہ رہا تھا کہ اپ جب لیڈر بن جائیں تو اپنے اندر ان خوبیوں کو پیدا کرنے کی کوشش کریں تاکہ اپ کامیاب لیڈر بن سکیں۔ وہ فرما رہا تھا کہ اگر اپ لوگوں نے خود کو پہچانا تو اپ کے اشاروں پر لوگ ناچے نگے، سلیوٹ کرے نگے، گاڑی سے اتر کر دروازہ کھولے نگے، اپ کے آنے سے پہلے اپ کے کرسی کو گرد سے جھاڑے نگے، آپ کیلئے لوگ قطاروں میں انتظار میں کڑے ہونگے کہ صاحب کب آئےگا وغیرہ وغیرہ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ موٹیویٹر کے یہ الفاظ حقیقت پر مبنی تھے اور واقعی لیڈروں کی ایسی ہی آؤ بھگت ہوتی ہے۔ لیکن اگر ہم سماج میں صرف لیڈر (کسی بھی صورت میں ایسا کامیاب انسان جس کے اشاروں پر لوگ ناچتے ہیں یا جو اشاروں پر لوگوں کو نچاتے ہیں ) ہی کو ایسا سٹیٹس دےنگے تو قطار میں کھڑا ہونے والوں کا کیا ہوگا، کرسی کو جھاڑنے والوں کا کیا ہوگا۔

گاڑی کا دروازہ کھولنے والوں کا کیا ہوگا، سلیوٹ کرنے والوں کا کیا ہوگا؟ کیا ان کو سماج سے باہر نکال پھینک دے؟ اگر کامیابی صرف لیڈر ہی بننے میں ہے، اگر کامیابی صرف لوگوں کو اشاروں پر نچوانے ہی میں ہے تو کیا ناچنے والے اور لیڈر کے ماتحت لوگ ناکام ہوچکے ہیں اور اگر وہ ناکام ہوچکے ہیں تو کیا ان کے سینوں میں دل نہیں ہے۔ جو کامیابی کی آرزو کرے؟ کیا وہ عقل و شعور سے محروم ہے۔ جو محکوم بننے کو ناکامی نہیں سمجھ سکے؟

اج اپ لائبریری جا کر دیکھئے جتنے بھی کتابیں جو کامیابی کے حصول کے بارے میں لکھے جاچکے ہیں۔ ان ساری کتابوں میں اپ کو ایک ایسا انسان بننے کی ترغیب ملے گی جو اوپر مزکور ہوچکا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم جو ہے یا جیسا بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں اسی کیلئے حوصلہ دلانے کی کوشش کی جاتی۔ ہمیں یہ سیکھایا جاتا کہ ہر قسم کے سٹیٹس کا انسان ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں

کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں

میں پھر اپنے اوپر بیان ہوئے تصویر کے قصے کی طرف جاتا ہوں یہ تصویر جس مصوّر نے بنایا ہے۔ وہ اس تصویر کو کاغذ پین، پنسل، رنگ اور ربڑھ وغیرہ کے بغیر نہیں بنا سکتا تھا، ان ہی چیزوں کی موجودگی میں وہ اپنے خیالات کو قرطاس پر لانے کا اہل ہوا۔ اب پین، پنسل اور کاغذ وغیرہ، جس کمپنی نے تیار کئے ہونگے مزکورہ موٹیویٹر یا اس طرح کے سوچ رکھنے والے دیگر لوگوں کے مطابق اس کمپنی میں صرف ایک ہی کامیاب انسان ہوگا۔

یعنی کمپنی کا باس اور باقی سارے ناکام انسان ہونگے، یعنی باس کے ماتحت لوگ، ملازمین، مزدور اور پہرا دینے والا عملہ وغیرہ۔ اب کیا یہ پین، پنسل، اور کاغذ باس نے خود اپنے ہاتھوں سے تیار کئے یا اس کام کیلئے کمپنی میں ملازمین (ناکام انسانوں ) کی خدمات لی گئی۔ اگر ملازمین سے خدمات لی گئیں اور باس کیلئے ملازمین کے بغیر ایسا ناممکن تھا تو پھر ہم کیوں صرف باس ہی کو کامیاب انسان قرار دے۔

پھر ہم کامیابی کی فہرست میں وہ لوگ شامل کیوں نہ کرے جن کے بغیر ایک خوبصورت اور مسحور کن تصویر کا بننا ناممکن ہے۔ پس اس حقیقت سے ہمیں انکار نہیں کرنا چاہئے کہ کائناب کی اس تصویر میں کسی بھی انسان اور دیگر موجودات کا ایک اہم کردار ہے اور ان میں سے ایک ہی اگر منظر سے ہٹا دیا جائے تو تصویر نامکمل نظر آئےگی۔

اپ جھاڑو دینے والوں میں سے ہیں یا دروازہ کھولنے والوں میں سے، اپ سلیوٹ کرنے والوں میں سے ہیں یا قطاروں میں انتظار کرنے والوں میں سے، اپ لیڈر ہے یا اس کے اشاروں پر ناچنے والوں میں سے، اپ ہی سے اس نظامِ کائنات کی تصویر مکمل ہے اور اپ ہی کامیاب انسان ہے۔ البتہ اگر ہم نے کامیابی کا معیار یہ ٹھرایا جو اوپر مزکور ہوچکا تو پھر ہم سارے ناکام ہیں صرف لیڈر لوگ ہی کامیاب ہیں۔

Check Also

Akbar Badshah, Birbal Aur Modern Business

By Muhammad Saqib