1.  Home
  2. Blog
  3. Yaseen Malik
  4. Farooq e Azam Aur Hamare Rehnuma

Farooq e Azam Aur Hamare Rehnuma

فاروقِ اعظم اور ہمارے راہنما

"مجھ کو تمہارے مال یعنی بیت المال میں اس قدر حق ہے جتنا یتیم کے پالنے والے کو یتیم کے مال میں"۔

"میں اگر دولتمند ہونگا تو کچھ نہ لونگا لیکن اگر ضرورت پڑے گی تو آئین و قانون کے مطابق کھانے کے لئے لے لونگا"۔

"صاحبوں! میرے اوپر تم لوگوں کے کچھ حقوق ہیں جس کا تم کو مجھ سے مطالبہ کرنا چاہئے"۔

"ایک یہ کہ ملک کا خرآج (غیر مسلموں سے لیا جانے والا محصول) اور مال غنیمت بے جا طور پر جمع نہ کروں، ایک یہ کہ جب میرے ہاتھ میں خرآج اور غنیمت آئے تو بے جا طور سے صرف نہ ہونے پائے، ایک یہ کہ میں تمہاری آجرتیں بڑھا دوں اور تمہاری سرحدوں کو محفوظ رکھوں، ایک یہ کہ تم کو خطروں میں نہ ڈالوں "۔

یہ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رض کے الفاظ ہیں جو اس نے اپنی رعایا سے ایک خطبے میں کہے تھے۔

ہم بھی اسلام کی بنیاد پر بننے والی ریاست میں رہتے ہیں جس کا نام بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ لیکن آج تک کسی رہنما سے یہ نہیں سنا کہ مجھ کو تمہارے مال یعنی بیت المال میں اس قدر حق ہے جتنا یتیم کے پالنے والے کو یتیم کے مال میں۔ ہم نے تو ہر رہنما کے ہاتھوں ملکی خزانے کو بے دھڑک لوٹتے دیکھا۔ ہم نے تو یہاں وزیراعظم سے اتھاریٹی میں کم اسمبلی کے ارکان اور بیوروکریٹس کی تنخواہیں بھی لاکھوں سے کم نہیں دیکھیں۔

اوپر سے ان کے گھریلوں خرچے اور کروڑوں کی گاڑیاں اور ملازمین کی فوج ظفر موج کے خرچے الگ۔ وزیراعظم کے اخراجات کا تو حساب ہی مشکل ہے۔ کیا ان کی تنخواہیں کوچوں اور بازاروں میں محنت مزدوری کرنے والوں کے اجرتوں کے برابر ہیں؟ کیا آئین پاکستان میں یہ لکھا ہے کہ وزیراعظم کو خزانے پر اتنا ہی حق ہو گا جتنا کہ کسی یتیم کے پالنے والے کو یتیم کے مال پر؟

شام و روم جسی سپر پاؤرز کو خاک میں ملانے والے فاروقِ اعظم فرماتے ہیں کہ میں اگر دولتمند ہونگا تو کچھ نہ لونگا لیکن اگر ضرورت پڑےگی تو آئین و قانون کے مطابق کھانے کے لئے لے لونگا۔ لیکن یہاں تو ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے جاگیر دار ہوتے ہیں، بڑی بڑی کمپنیوں کے مالک ہوتے ہیں، اندرون و بیرون ملکوں میں کھربوں روپے کی زمینیں اور گھر ہوتے ہیں لیکن پھر بھی خزانے سے تنخواہیں مزدور کی اجرتوں کے مقابلے میں سو گنا زیادہ لیتے ہیں۔

یہاں تو آج تک کسی راہنما یا بیوروکریٹ وغیرہ نے یہ نہیں کہا کہ میں مالدار ہوں میں خزانے سے پیسے نہیں لونگا۔ یہاں تو الٹا کرپشن کی جاتی ہے قوم کے خزانے کو لوٹنے میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیا جاتا۔ ایک دن کفر و اسلام کے مابین فرق واضح کرنے والے اور دنیا کے تیسرے حصے پر حکمرانی کرنے والے اسی عظیم راہنما فاروق اعظم کے سامنے رعایا میں سے ایک عام آدمی نے غصے میں ایک نہیں کئی بار کہا کہ اے عمر خدا سے ڈرو، اے عمر خدا سے ڈرو۔

حتٰی کہ حاضرین میں سے ایک شحص کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ بس بہت ہوا جس پر روم و شام جیسے سپر پاورز کو خاک میں ملانے والے فاروقِ اعظم فرماتے ہیں کہ نہیں کہنے دو اسے۔ اگر یہ لوگ نہ کہیں تو یہ بے مصرف ہیں اور ہم لوگ نہ مانیں تو ہم۔ یہاں بھی اگر کوئی کچھ کہنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے ساتھ ایاز امیر جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ اس ملک کی تاریخ دیکھ کر پتہ چلےگا کہ سلاخوں کے پیچھے ایسے لوگوں نے بھی صعوبتیں برداشت کیں جنہوں نے حق بات کہنے کی کوشش کی تھی۔

ان سطور کو پڑھ کر کسی مغرب نواز کے ذہن میں سوال اٹھ سکتا ہے کہ وہ تو چودہ سو سال پرانی باتیں ہیں ان حالات کا آج کے حالات سے موازنہ کرنا غلط ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج کے دور کے تقاضے کچھ اور ہیں اور زمانہ فاروق کے تقاضے کچھ اور تھے لیکن کیا انسان بھی بدل چکے ہیں؟ آج بھی مزدور سے وہی کام لیا جاتا ہے جو اس وقت لیا جاتا تھا۔ آج بھی مزدور کو آج کے حالات کے مطابق اتنا ہی معاوضہ ملتا ہے جتنا اس زمانے میں ان خالات کے مطابق۔

لیکن کیا صرف ایوان اقتدار کے لوگوں کے حالات اور مجبوریاں بڑھ چکی ہیں کہ بے جا سہولیات اور زیادہ تنخواہوں کے بغیر ان کا گزارہ ممکن نہیں رہا۔ کیا فرق پڑےگا مسند اقتدار پر بیٹھنے والوں پر اگر اس پر عام شہریوں کو ان کے حقوق کے بارے میں انگلی اٹھانے کا آزادانہ حق دیا جائے جس کے نتیجے میں اس پر حملے نہ ہو، جس کے نتیجے میں وہ لاپتہ نہ ہو وغیرہ۔

Check Also

Kya Pakistani Adalaten Apne Daira e Kar Se Tajawuz Karti Hain?

By Imran Amin