Tuesday, 07 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Yaseen Malik/
  4. Ehsaan Faramosh Qaum

Ehsaan Faramosh Qaum

احسان فراموش قوم

کہتے ہیں کہ ایک دن کسی چرواہے نے بھیڑیے کے ایک چھوٹے بچے کو گھر لایا اور اس کو بھیڑوں کے ریوڑ کے ساتھ پلنا شروع کیا۔ وہ بھیڑوں کا دودھ ان کے بچوں کے ساتھ ساتھ اس بھیڑیے کے بچے کو بھی دیا کرتا تھا اتنا ہی نہیں بلکہ وہ جب بھی بھیڑوں کے اس ریوڑ کو چرانے کے لیے لے جاتا تھا تو اس بھیڑیے کے بچے کو بھی ساتھ لے جاتا تھا۔ چرواہا کہا کرتا تھا کہ وہ بھیڑیے کے اس بچے کو اس لئے بھیڑوں کا دودھ دیتا ہے اور اس کے ساتھ چراتا ہے کہ جب وہ بڑا ہوجائے تو اس کے رگوں میں بھیڑوں کا خون شامل ہوگا تو اس طرح وہ بھیڑوں کو کھائے گا نہیں بلکہ وہ دوسرے بھیڑیوں سے بھی ان کو بچائے گا۔

وقت گزرتا رہا اور بھیڑیے کا بچہ بڑا ہوتا رہا۔ جب جوان ہوا تو ایک دن چرواہے نے ریوڑ کو چھوڑ کر کسی کام سے شہر گیا اور ریوڑ کو بھیڑیے کے اس جوان بچے کے رحم و کرم پر چھوڑ گیا جب وہ واپس آیا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب بھیڑیے کے اس جوان بچے کو بھیڑوں کو چیر پھاڑتے دیکھا۔ اس سے اس نے یہ نتیجہ آخذ کیا کہ بھیڑیے کا بچہ بھیڑیا ہی ہوتا ہے خوا وہ بھیڑ کے ساتھ پلا بڑا ہو یا بھیڑیے کے ساتھ۔

تو اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔ تو یہ حقیقت ہے کہ کسی چیز کی فطرت کبھی نہیں بدلتی۔ درندہ درندہ ہی رہتا ہے خوا اس کی پرورش کتنا ہی لاڈ پیار سے کیوں نہ ہو۔ میں تقریباً دو سالوں سے پرائویٹ ٹیچنگ کرتا آرہا ہوں۔ میں کے جی سے لے کر دسویں جماعت تک مختلف مضامین پڑھا رہا ہوں جیسا کہ اردو، جیوگرافی، مطالعہ پاکستان، اسلامیات، انگلش اور میتھس وغیرہ میں حال ہی میں جس سکول میں پڑھاتا ہوں وہاں پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کے بچے بھی آتے ہیں اس سے پہلے بھی میں جس سکول میں پڑھاتا تھا وہاں بھی افغان بچوں کی ایک بڑی تعداد تھی۔ ان دو سالوں کے دوران افغان مہاجرین کے نفسیات کا جہاں تک مجھے ادراک ہوا وہ یہ کہ یہ حد درجہ کی احسان فراموش قوم ہے۔

ان کی خمیر میں پاکستان سے بغض و عداوت اور نفرت و دشمنی شامل ہے۔ فقط افغان مہاجرین ہی نہیں بلکہ ان میں اکثریت وزیرستان اور قبائلی علاقہ جات کے لوگوں کا بھی ہیں۔ یہ فطرت سے مجبور ہیں اور پاکستان میں رہ کر بھی پاکستان کے خلاف زہر اگل رہے ہیں۔ یہ اس دن سخت کوفت محسوس کر رہے ہوتے ہیں جس دن پاکستان نے کوئی کرکٹ میچ جیتا ہو یا کسی اور میدان میں کوئی کامیابی حاصل کی ہو اور اس دن ان پر عید ہوتی ہے جس دن پاکستان نے میچ ہارا ہو یا پاکستان میں کوئی خودکش حملہ ہوا ہو وغیرہ۔

اکثر ان کے بچے استاد پر پاکستان سے متعلق بہت ہی نفرت انگیز سوالات کرتے ہیں۔ پتہ نہیں ان کی ذہن سازی کہاں سے اور کسے ہوتی ہے۔

میں جب مطالعہ پاکستان پڑھا رہا ہوتا ہوں تو جب کہی لیاقت علی خان، سرسید احمد خان، قائداعظم نظریہ پاکستان، اور یا پاکستان کی تعمیر و ترقی و استحکام سے متعلق کوئی بات ہوتی ہے وغیرہ تو ان کی حالت دیدنی ہوتی ہے۔ یہ لمبی لمبی سانسیں لے رہے ہوتے ہیں جیسے میں ان کو کوئی گالیاں دینے لگا ہوں اور یہ بے چارگی کے سبب برداشت کر رہے ہو۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ سوچتے ہیں کہ جیسے میں سب جھوٹ ہی جھوٹ بولتا ہوں۔ کچھ بچوں پر تو میرا کلاس میں آنا گراں گزرتا ہے کہ اب میں پھر پاکستان کی باتیں کرونگا اور ان کو پھر سے یہ برداشت کرنی پڑےگی۔

کل ہی جب میں نے لیکچر ختم کیا اور قائداعظم کے سیاسی بصیرت پر کچھ باتیں کئی تو ان میں سے ایک سٹوڈنٹ نے مجھ سے سوال کیا کہ سر! قائداعظم کس فرقے سے تعلق رکھتا تھا۔ ایک دن ایک اور سٹوڈنٹ بول اٹھا جو وزیرستان سے تعلق رکھتا تھا کہ سر! مطالعہ پاکستان میں بھی ہم سے زیادتی کی گئی ہے، میں نے کہاں کہ وہ کیسے تو وہ کہنے لگا کہ سر مطالعہ پاکستان میں بہت سارے لوگوں کا ذکر تو موجود ہے لیکن حاجی مرزا علی خان کا اس میں کہی بھی ذکر نہیں۔ اس پر میں نے ان کو سمجھایا کہ دیکھئے مطالعہ پاکستان میں صرف ان لوگوں کا ذکر ہے جنہوں نے پاکستان کو بنانے میں کوئی کردار ادا کیا ہو حاجی مرزا علی خان تو مقامی سطح پر انگریزوں سے آزادی کے جنگ میں مصروف تھے۔ ان کا تو تحریک پاکستان میں کوئی کردار نہیں تھا۔

ایک دن ایک سٹوڈنٹ نے سوال کیا کہ پاکستان کو بنانے میں تو بہت سارے لوگوں نے کردار ادا کیا تھا ہزاروں علمائے کرام نے قربانیاں دی تھیں تو سارا کریڈٹ صرف قائداعظم ہی کو کیوں جاتا ہے۔ اس پر میں نے انہیں موجودہ افغانستان کی مثال دی کہ وہاں پر طالبان تقریباً چالیس سالوں سے روسی اور پھر امریکی تسلط سے رہائی کے لیے برسرپیکار رہے اور اس دوران افغانستان میں موجود بہت سی قوموں مثلاً تاجک، ازبک، پختون اور پرشیئن وغیرہ نے بے شمار قربانیاں دیں اور اس پر بس نہیں بلکہ پاکستان کے عوام نے بھی ان کے ساتھ اس جہاد میں حصہ لیا حتٰی کہ عرب اور افریقی ممالک کے لوگ بھی آئے اور سرزمین افغانستان پر افغانستان ہی کی آزادی کے لیے لڑے لیکن آج تو حکومت صرف اور صرف وہاں کے طالبان کی ہے کیا اب پاکستانی بھی کلیم کریں کہ ہم نے بھی قربانیاں دی ہیں ہمیں بھی حکومت میں حصہ دیں، کیا عربوں کو بھی کریڈٹ دیا جائے۔

ایک دن ایک سٹوڈنٹ نے کہا کہ سر میں نے سنا ہے کہ قائداعظم کو انگریزوں نے خود لاکر ایک سازش کے تحت پاکستان بنایا۔ ایک دن ایک اور سٹوڈنٹ نے بتایا کہ سر کہاجاتا ہے کہ سر سید احمد خان نے قرآن پاک کی تفسیر لکھی ہے اس میں اس نے کچھ اسی باتیں لکھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا عقیدہ غلط تھا۔ ایک دن ایک سٹوڈنٹ نے کہا کہ اعلامہ اقبال اگر عالم اسلام کا شاعر ہے تو وہ تو داڑھی کیوں نہیں رکھتے تھے اور پینٹ شرٹ کیوں پہنتے تھے یہ کسے مسلمان تھے۔ ایک دن ایک سٹوڈنٹ کہہ رہا تھا کہ پاکستان ہمارے اٹک تک کے ایریا پر قابض ہے۔

اسکول کے اسمبلی میں جب قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے تو یہ خاموش رہتے ہیں اور اگر پڑھتے بھی ہے تو ایسے جیسے کوئی اسے مجبور کررہا ہو۔ میں مستقل کوشش کرتا رہتا ہوں کہ جہاں تک ممکن ہو استاد کی حثیت سے میں ان کی اس سوچ کو بدلو لیکن آئے دن ان کا وہی رویہ ہوتا ہے۔

بہرحال ان کو یہ نہیں نظر آرہا کہ پاکستان نے ان کو نصف صدی سے پناہ دی ہے، یہ پاکستان میں کھاتے ہیں پاکستان میں پیتے ہیں، پاکستان ہی میں تعلیم حاصل کرکے باشعور بن رہے ہوتے ہیں لیکن ہر محاذ پر پاکستان ہی کے خلاف زہر آفشانی کرتے رہتے ہیں سوشیل میڈیا ایکس، واٹس ایپ، فیس بک، یوٹیوب سکولوں، یونورسٹیوں اور گلی کوچوں میں پاکستان ہی کے خلاف نفرت اگلتے رہتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ پاکستان نے افغانستان کو بھائی سمجھ کر ان سے متعلق پالیسیاں تو بنائی لیکن ان کے نفسیات کا مطالعہ نہیں کیا۔ کہ یہ کبھی بھی ہمارے بھائی نہیں بننے والے۔

یہ اتنے احسان فراموش ہیں کہ خدانخواستہ اگر کل افغانستان سے جنگ چھڑ جائے تو یہ اخلاقی طور پر اپنے حکومت سے یہ مطالبہ نہیں کرےگا کہ پاکستان نے ہمیں پناہ دی ہیں ہماری ایک نسل یہاں پروان چڑھی ہے اس لئے پاکستان کے خلاف اخلاقی طور پر جنگ کا جواز نہیں بنتا بلکہ یہ الٹا اصلحہ اٹھا کہ پاکستان کے اندر پاکستان کے دشمن بن جائےنگے۔ بہرحال حکومت کے لئے جہاں تک ممکن ہو جلد از جلد ان مہاجرین کو باعزت طریقے سے واپس کرنے کا کوئی منصوبہ بنائے اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزرے اور پھر افسوس کے سوا کچھ نہ بچے۔

Check Also

Kya Hum Mafi Nahi Mang Sakte?

By Mohsin Khalid Mohsin