Tuesday, 07 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Yaseen Malik/
  4. Dastan e Army Public School Peshawar (2)

Dastan e Army Public School Peshawar (2)

داستانِ آرمی پبلک سکول پشاور (2)

بچے بھی ان کے چہروں کو دیکھ کر خوفزدہ ہوئے۔ چند ہی منٹوں میں یہاں کا نقشہ بدلنے والا تھا آسمان بھی یہ تماشہ خاموشی سے دیکھ رہا تھا اور زمیں بھی، پرندے تو گولیوں کی آوازیں سن کر اڑ چکے تھے۔ سکول کے فرش جس کو ہفتے یا پھر مہینے میں ایک بار پانی سے دھویا جاتا تھا اب وہ ان نونہالان چمن کے خون سے دھویا جانے والا تھا، وہ نرم و ملائم بدن جس پر اس کے والدین غلطی سے سوئی کا چبھنا بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے اب ان کو ان انسان نما درندوں نے گولیوں سے چھلنی کر دینا تھا۔

وہ لاڈلے بچے جن کا اکیلے دور جانا ایک لمحے کیلئے بھی انکے والدین برداشت نہیں کر سکتے تھے اب وہ ہمیشہ کیلئے ان سے جدا ہونے والے تھے، نونہالان چمن کے ان پھولوں کی جو امیدیں اس زندگی سے وابستہ تھی اب وہ کفن میں لپیٹنے والے تھے، یہ بات اب ثابت ہو رہی تھی کہ گھر سے سکول تک جانے کا ارد گرد کا نظارہ ان نونہالوں کی زندگی کی رنگینیوں کی آخری جھلک تھی یعنی گھر سے لیکر سکول تک آنے کے دوران انہوں نے جو کچھ دیکھا یہ ان کیلئے اس دنیا کی رنگینیوں کا آخری نظارہ ثابت ہونے والا تھا۔

اب یہ ننھے اور معصوم گلدستے ہمارے اس ملک میں جاری اس دہشتگردی کی بھینٹ چڑھنے والے تھے جو کئی دہائیوں سے اسلام کے نام پر جاری ہے جس کو ایسے لوگ انجام دینے والے ہیں جو لباس حضر میں چھپے منافق دشمن ہیں، جو ہماری جہالت کا فائدہ اٹھا کر ہم کو اپنے ہی ملک کے خلاف لڑائی پہ آمادہ کرتے ہیں جو بیرون ملکوں میں تربیت لیتے ہیں اور وہاں سے جنت کی ٹکٹیں لیکر ہم جیسی جاہل قوم کے مابین بانٹ لیتے ہیں اور جس کی لالچ میں آ کر ہم جیسے دین سے بے خبر لوگ قتل کرنے پر بھی آمادہ ہو جاتے ہیں۔

بہرحال اب اس قوم کے یہ معصوم بچے اس دنیا سے ان درندوں کے ہاتھوں جانے والے تھے اس دن میرے منہ سے بے اختیار یہ بے ترتیب الفاظ نکلے تھے کہ:

کفر خانداں زن ہے آج مسلمانوں کے ایمان پر

جنت بٹ رہی یہاں بچوں کے قتل عام پر۔

یہاں اب جنت کا سودا ان معصوم نونہالوں کے قتل کے بدلے ہو چکا تھا یہاں سے اب یہ درندہ صفت قاتل بلاواسطہ جنت جانے کی امیدیں وابسطہ کئے آئے تھے۔ اب ان حالات میں حارث نواز شہید ہونے جا رہا تھا اور احمد نواز کی باقی ماندہ زندگی کیلئے یہ پشیمانی چھوڑ رہی تھی کہ کاش میں نے حارث نواز کی اس بات کا بھرم رکھ لیا ہوتا جو انہوں نے مجھ سے کہی تھی کہ آج وہ سکول جانا نہیں چاہتا لیکن اس نے اس کو سکول جانے پر مجبور کیا تھا۔

آج بھی جب وہ والدین کا سامنا کرے گا تو ان کے چہرے اس سے یہ سوال کریں گے کہ احمد بیٹا حارث کے کہنے کے باوجود بھی آپ نے اسے سکول جانے پر مجبور کیا اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سکول چھوڑ کے چلا گیا۔

بہرحال یہ تو حارث اور احمد کی داستان ہے ایسی ایک سو چالیس سے زائد داستانیں آپ کو آرمی پبلک سکول پشاور کے اس سانحے میں مل جائینگی۔ ہر بچے کی خون کے آنسو رلانے والی کہانی ہے۔ میں نے تو یہ بھی پڑھا کہ ایک ماں کا ایک ہی بیٹا تھا جو اس سکول میں داخل کرایا گیا تھا اور وہ بھی بدقسمتی سے اس سانحے میں اللہ کو پیارا ہوگیا اس کی ماں کو جب پتہ چلا تو وہ ذہنی توازن کھو بیٹی اور کئی سالوں تک ہر صبح آرمی پبلک سکول کے دروازے پر اپنے بیٹے کو لینے جاتی لیکن اس کا دماغ یہ بات تسلیم کرنے سے رہا کہ اس کا اکلوتا بیٹا شہید ہو چکا ہے۔

اس عورت کا نظارہ روز عرش کرتا ہوگا جو اپنے بیٹے کو اپنی آنکھوں سے شہید ہو کر دیکھنے کے باوجود بھی اس بات سے انکاری تھی کہ اس کا بیٹا مر چکا ہے، ماں کی مامتا کی اس سے بڑھ کر اور کونسی مثال دی جا سکتی ہے۔ اس سانحے میں کچھ خاندان تو ایسے بھی تھے جن کے سارے کے سارے بچے ان کو چھوڑ کر چلے گئے کیا کوئی اندازہ کر سکتا ہے کہ ان پر کیا بیتی ہوگی جب ان کے دو یا تین بچوں کی لاشوں کو چارپائی پر گھر لے آئے ہونگے؟

اس دن پشاور کی گلی گلی اشک بار تھی گھر گھر سے آہ و فغاں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ پشاور تو چھوڑیے پوری پاکستانی قوم شدید غم و الم کی گرداب میں پھنس چکی تھی لیکن ان حالات میں بھی اسلام آباد کے اعلٰی ایوانوں میں بیٹھنے والوں کی صرف زبانی جمع خرچ ہی دیکھی جس کا اندازہ آنے والے وقت سے ہوا کہ اس سانحے پر بنایا گیا کمیشن آج تک پیش رفت کیلئے پیش نہیں ہوا۔

دشمن کی مکاری تو دیکھئے اس زخم کو دینے کیلئے وہی دن چنا گیا جس پر یہ ملک دو لخت ہوا تھا۔ اسی دن یعنی 14 دسمبر 1973 کو مشرقی اور مغربی پاکستان کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ایک دوسرے سے جدا کیا گیا تھا اور آج 14 دسمبر 2016 کو یہ سانحہ رونما ہوا تھا۔ وہ جو کہتے ہیں نہ کہ وقت ہی تمام بیماریوں کا علاج ہے وقت کے ساتھ ساتھ پشاور کا یہ سانحہ بھی بھلا دیا گیا اور قوم کی توجہ وہی روایتی سیاسی منظر نامے کی طرف دلائی گئی۔

پاکستان کا یہ سیاسی منظر نامہ ایک سٹیج شو کی مانند ہے جس کو دیکھنے کیلئے 22 کروڑ عوام ستر سالوں سے بیٹھے ہیں۔ اس شو میں بڑے بڑے کردار آئے اور چلے گئے کچھ کردار تو کئی مرتبہ آئے اور پھر پس منظر میں چلے گئے۔ کچھ کرداروں کو تو حقیقی موت نے پس منظر میں دھکیل دیا جبکہ کچھ کردار طے شدہ سکرپٹ کے ذریعے پردے کے پیچھے چلے گئے۔

ہر کردار ایک نئے ڈھنگ سے آتا ہے اور لے دے کہ ناظرین کی توجہ اپنی طرف مبزول کئے رکھتا ہے حتیء کہ نیا آنے والا کردار اس سے بھی کچھ نیا کر کے دکھانے کی ڈینگے مارتا ہے اور یوں ناظرین کو ایک نیا مشغلا مل جاتا ہے۔ یہ ناظرین بھی کتنے نہ سمجھ ہیں جو اپنی مشکلات بھول چکے ہیں کہ شو دیکھتے وقت سنیما کے اس حال میں کیا روٹی بھی مل جاتی ہے، کیا پنکھے بھی چلتے ہیں، کیا ٹکٹ دینے میں رعایت بھی بھرتی جاتی ہے یا صرف شو دیکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

بہرحال یہ قوم اگر سقوط ڈھاکہ اور سانحہ آرمی پبلک سکول سے بھی بیدار نہیں ہوئی تو کب بیدار ہوگی، کب انگڑائی لینے کیلئے تیار ہوگی یہ قوم۔ ایسی کونسی انہونی ہوگی جس سے یہ قوم اور اس کی تقدیر کو ہاتھوں میں لئے ہوئے اسلام آباد کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کا ضمیر تب جاگ اٹھے گا۔ شائد کہ اس قوم کو کسی خضر کی تلاش ہے لیکن خضر کے ہوتے ہوئے یہاں خضر کیا کرےگا یہاں تو سب خضر ہیں صرف ضمیر مر چکے ہیں۔

Check Also

Gustakhi Ki Talash Aur Hum

By Qasim Asif Jami