1.  Home/
  2. Blog/
  3. Yaseen Malik/
  4. Dastan e Army Public School Peshawar (1)

Dastan e Army Public School Peshawar (1)

داستانِ آرمی پبلک سکول پشاور (1)

چھوٹے بھائی حارث نواز نے اپنے بڑے بھائی احمد نواز سے کہا۔

بھائی آج سکول جانے کو دل نہیں کر رہا۔

نہیں آج تو تمہیں جانا ہی ہوگا نہیں تو امی جان ناراض ہو جائے گی۔

(بڑے بھائی احمد نواز نے جواب دیا)

کیوں بھائی، کیوں ناراض ہو جائے گی؟

(حارث انجان بن کر بولا)

یار تو بھی نا، کل جاتے وقت انہوں نے کہا تھا نہ، کہ کل تم دونوں سکول ضرور جاؤ۔

(بڑے بھائی احمد نواز نے شفقت بھری نگاہ سے کہا)

(اس کی امی اور ابو کل اشرف چچا کے گھر گئے ہوئے تھے اور احمد اور حارث کو گھر ہی پر چھوڑ گئے تھے)

اوف۔ تو کونسی بڑی بات ہے ایک دن کی تو چٹھی ہے ویسے بھی گھر پر کوئی نہیں، اسلئے میں تو ہونگا نہ۔

(چھوٹے بھائی نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا)

میں نے کہا نہ، کہ آج ہم دونوں سکول جائنگے۔

(احمد نے قدرے غصے میں بولا)

حارث نے بڑے بھائی احمد کے سامنے خود کو بے بس سمجھ کر یونیفارم چینچ کرنے کیلئے کھانے کے ٹیبل سے اٹھا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔

اسی اثناء میں احمد بھی سکول کا یونیفارم چینج کرنے اپنے کمرے میں گیا۔ کچھ دیر بعد دونوں بھائی تیار ہو کر گھر سے نکلے اور سکول وین کیلئے انتظار کرنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد سکول وین آ پہنچی۔ دونوں وین میں بیھٹے اور وین میں باقی کلاس فیلوز سے گرمجوشی سے ملے۔ یہاں وین میں بھی حارث اور احمد کے مابین تکرار بدستور جاری تھی، حارث روٹھا ہوا تھا کہ وہ اسے سکول کیوں لے آیا۔

بہرحال یہ سولہ دسمبر دو ہزار چودہ بروز منگل کی ایک دھمکا دینے والی صبح تھی۔ سکول کی وین ٹھیک سکول کے مین گیٹ پر رکی اور پانچ سے لیکر انیس بیس سال کے بچے ہشاش بشاش چہرے لئے ہوئے وین سے اترے اور اپنے کلاس فیلوز کے ہمراہ اپنی اپنی کلاسز میں داخل ہوئے۔

دوسرے بچوں کی طرح حارث اور احمد بھی ایک دوسرے سے جدا ہوئے یعنی اپنی اپنی کلاسز میں چلے گئے۔ کلاسوں میں پہلے سے وہ سٹوڈنٹس موجود تھے جن کے گھر سکول کے قریب تھے، ان میں سے کچھ ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھے تو کچھ درسی کتب کے اسباق کے بارے میں ایک دوسرے سے ڈسکشن کر رہے تھے اور کچھ بچے ٹیست کیلئے تیاری کر رہے تھے جو کل اس کے ٹیچر نے آج کیلئے دیئے تھے وغیرہ۔

کچھ دیر بعد اسمبلی کیلئے گھنٹی بجی، گھنٹی سن کر سارے بچے اسمبلی ہال میں جوق در جوق آنے لگے۔ حارث اور احمد بھی اسمبلی ہال میں آئے، انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا وہ بھی اس حالت میں جس میں خارث اپنے بھائی سے ناراض نظر آ رہا تھا اور کیوں نہ وہ تو آج سکول آنا نہیں چاہتا تھا پر وہ اسے لے آیا تھا۔

بہرحال اسمبلی ختم ہونے کے بعد سٹوڈنٹس اپنی اپنی کلاسز میں چلے گئے اور کلاسز کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ پہلا پریڈ معمول کے مطابق ختم ہوا۔ جب دوسرا پریڈ شروع ہوا تو اس کے اختتام پر ٹیچرز نے اپنے کلاس کے بچوں کو آگاہ کیا کہ تیسرا پریڈ ختم ہونے کے بعد آڈیٹوریم میں ڈرل کا پریڈ ہوگا جس میں بچوں کو یہ سکھایا جائے گا کہ ہنگامی خالات میں اپنی دفاع کیسے کرنا ہے۔

جب تیسرا پریڈ شروع ہوا تو بعض کلاسز کے طلبا آڈیٹوریم میں چلے آئے ان طلبا میں سے ایک احمد نواز بھی تھا۔ ڈرل کا پریڈ شروع ہوا تو بچے بڑے غور سے ایک ایک بات کو سن رہے تھے اور اس کو نوٹ بھی کر رہے تھے۔ جن بچوں کا آرمی میں جانے کا شوق تھا وہ تو اور بھی زیادہ توجہ کے ساتھ یہ باتیں سن رہے تھے حتٰی کہ انہیں ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ اب آرمی میں ہیں اور ان کے آفیسرز ان کو تربیت دے رہے ہیں۔

ان بچوں کے چہروں پر ایک جذباتی مسکراہٹ عیاں تھی۔

ابھی بہ مشکل دس بیس منٹ ہی گزر چکے ہونگے کہ اچانک آڈیٹوریم کی پچھلی دیوار سے گولیوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں لیکن سکول کے ایک کونے میں چونکہ کچھ کام ہو رہا تھا اسلئے بعض ٹیچرز اور سٹوڈنٹس یہ سمجھے کہ یہ تو کام کی جگہ سے آوازیں آ رہی ہیں اس کے علاوہ کچھ بچوں کو یہ لگا کہ شائد آس پاس میں کسی شادی کی تقریب ہو اور اس میں ہوائی فائرنگ ہو رہی ہو۔

مگر آڈیٹوریم میں موجود احمد نواز سمیت ان کے ساتھی طلبا یہ سمجھے کہ شاید یہ جو گولیوں کی آوازیں آ رہی ہیں ہو سکتا ہے کہ یہ ان کی تربیت کا ایک حصہ ہو اور یہ ان کے لئے ان کے ٹرینرز کی طرف سے ایک تربیتی مرحلہ ہو۔ لیکن ان نونہالان چمن جو کہ ابھی ابھی وہ اس چمن کے پھول بنے تھے، کو کیا خبر تھی کہ یہ آزمائش ضرور تھی پر صرف ان کیلئے نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم کیلئے اور خاص کر ان والدین کیلئے جن سے اب وہ توڑی دیر بعد ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بچھڑنے والے تھے۔

ان کو کیا خبر تھی کہ یہ آزمائش ضرور تھی پر تاریخ کے ان اوراق کیلئے جنہوں نے اس سے پہلے اس جیسی سفاکیت نہ دیکھی تھی۔ تاریخ ظلم و سفاکیت کی اس داستان کو اپنی بانہوں میں لینے کیلئے تیار نہیں تھی حالانکہ تاریخ ایک ایسا دریا ہے جس میں بڑے سے بڑی چیز بھی غرقاب ہو جاتی ہے۔ اس دریا نے سکندر اعظم کی آدھی سے زیادہ دنیا کا فسانہ اپنے اندر سمو لیا۔

اس دریا نے پہلی اور دوسری عظیم جنگوں کے فسانوں کو نگل لیا لیکن آج وہ انکاری تھا کہ وہ اس داستان کو قبول نہیں کرینگے پر اس کے سامنے وہ آٹھ درندہ صفت سفاک انسان بضد تھے کہ ہر طرح سے آپ نے اس داستان کو قبول کرنا ہے جس کو آج ہم رقم کرنے جا رہے ہیں۔ وہ انسان تو ظاہر ہے انسان نما درندے تھے جنہوں نے اب ہم سے ہمارے چمن کے پھول چھین لینے تھے۔

ان انسان نما درندوں اور تاریخ کے مابین تکرار جاری تھی کہ اچانک تاریخ چونک اٹھی اور وہ یہ داستان ہضم کرنے پہ راضی ہوئی۔ شائد انکو فرعون کا وہ دور سفاکیت یاد آیا ہو جس میں فرعون نے ہزاروں بچوں کو گاجر مولی کیطرح کاٹ دیا تھا اس خوف سے کہ کہی ان میں ان کا دشمن نہ ہو۔

بہرحال جب گولیوں کی یہ آوازیں باقی کلاسز میں سنائی دینے لگی تو ننھے ننھے بچوں نے رونا شروع کیا لیکن ان کے ٹیچرز انہیں دلاسا دینے لگے کہ کچھ نہیں یہ کوئی باہر سے گولیوں کی آوزیں آ رہی ہیں لیکن جب گولیوں کی آوازیں رفتہ رفتہ نزدیک ہوتی رہی تو ان کی دلوں کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں۔ باقی کلاس کے اساتذہ یہ سمجھے تھے کہ یہ تو آرمی والے ہیں جو آڈیٹوریم میں بچوں کو تربیت دے رہے ہیں۔ لیکن جوں جوں گولیوں کی آوازیں قریب ہوتی رہی تو انکا یہ خیال خام خیالی میں تبدیل ہونے لگا اور ان کے چہروں پر بھی خوف کا عالم طاری ہوتا رہا۔

Check Also

Magar Aik Maa Nahi Manti

By Azhar Hussain Azmi