1.  Home/
  2. Blog/
  3. Yaseen Malik/
  4. Azadi Kaise Mili

Azadi Kaise Mili

آزادی کیسے ملی

یہ نومبر 1947 کی ایک سرد شام تھی، مسلمانوں کو آزادی ملی تین ماہ ہو چلے تھے، شہرِ لاہور کی ہواؤں میں کہی نمی تو کہی خشکی پائی جاتی تھی، موسمِ گرما الوداع کہہ چکی تھی اور اب خزاں آ چکا تھا سرما کی نوید سنانے۔ ملک کے کونے کونے میں ہر انسان تھکا ہوا دکھائی دے رہا تھا کیونکہ حصول آزادی کے سر دھڑ کی اس بازی میں وہ سالوں سے دوڑ دھوپ میں تھے، ایسے گھرانوں کا گننا مشکل تھا جنہوں نے اس بازی میں اپنے معزز رشتے نہ کھوئے ہوں۔

ان کا گننا مشکل تھا کیونکہ کسی نے بہن کھوئی تھی تو کسی نے بھائی، کسی نے نونہالوں کے جنازے پڑھے تھے تو کسی نے معزز بزرگوں کے، کسی کے سامنے ان کی سہاگیں اجڑ چکی تو کوئی خود سہاگ کے سامنے ہمیشہ کے نیند سو چکی، کسی نے بیٹوں کو اپنے سامنے ذبح ہوتے دیکھا تو کسی نے ماؤں کو، حتٰی کہ ان میں سے ایک بڑی تعداد تو ان لوگوں کی بھی تھی جو کئی سالوں سے ایک نئے ملک کے لئے شدت سے منتظر تھے لیکن جب ملک بنا تو وہ دائمی نیند سو چکے تھے اور نئے ملک کی فضاؤں میں سانسیں لینے سے محروم رہے۔

بہرحال لاہور کی گلیوں اور سڑکوں پر سناٹا چھایا ہوا تھا۔ ایک کثیر تعداد میں لوگ پاکستان اور ہندوستان کی سرحد واہگہ بارڈر کی جانب محو سفر تھے۔ یہ وہاں فوجی پریڈ سے کوئی سیلفیاں لینے اور ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے نہیں جا رہے تھے بلکہ یہ ہندوستان میں پسے اپنے رشتہ داروں کو ابھی کچھ ہی دیر میں ہندوستان سے آنے والی ٹرین میں تلاش کرنے نکلے تھے۔ کسی کے ہاتھوں سے لالٹین لٹکتی دکھائی دے رہی تھی تو کسی کے ہاتوں سے چائے کی کیتلی لٹک رہی تھی۔

ہر آدمی کوئی نہ کوئی چیز ہاتھوں میں لئے جا رہا تھا تاکہ ہندوستان کے اس پر خطر اور تھکے ماندے سفر پر آئے لوگوں کی تواضع کر سکے۔ ایسے بھی مناظر دیکھے جا سکتے تھے کہ کسی کا ہاتھ کاٹا ہوا تھا تو کسی کا پاؤں پھر بھی وہ رینگتے ہوے واہگہ کی جانب سفر کناں تھے۔ ان کے یہ ہاتھ پاؤں حصولِ آزادی کی اس جنگ میں ہندوؤں بلوائیوں کے ہاتھوں کاٹ چکے تھے جو کلہاڑیوں اور خنجروں سے ان پر ایسے جھپٹ پڑتے جیسے کوئی درندہ کسی جانور پر جھپٹتا ہے۔

الغرض سب لوگ ٹولیوں کی صورت میں واہگہ کی طرف محو سفر تھے۔ رفتہ رفتہ واہگہ بارڈر پر لوگوں کا رش زور پکڑ رہا تھا، سب کی نگاہیں ہندوستان کی طرف سے آنے والی ریل کی پٹڑی پر مرکوز تھیں کہ اب ان پٹڑیوں پر دھواں اڑتا ہوا ٹرین نمودار ہو گی اور اب۔ لوگوں کے ساتھ آئے ہوئے چھوٹے چھوٹے بچے بار بار اپنے گھر والوں سے مطالبہ کر رہے تھے۔ امی ٹرین کب آئے گی؟ ابا جان وہ کب پہنچیں گے؟ دادی جان! ابو کب آئیں گے؟

ان میں سے کچھ تو وہاں پر بارڈر کے سپاہیوں سے بھی یہی سوالات کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔ لوگوں کے دلوں کی دھڑکینں دیدنی تھیں۔ ہر کوئی کسی اپنے کے آمد کے انتظار میں تھا۔ اسی اثنا میں کہی دور سے دھواں چھوڑتا ہوا ٹرین نمودار ہوئی جو بہت تیز رفتاری کے ساتھ پاکستان کی طرف آ رہی تھی، ٹرین کا نمودار ہونا تھا کہ خوشی اور جزبات کے ملے جلے تاثرات سے لوگوں کی چیخیں نکل گئیں۔

پاکستان زندہ باد، مبارک ہو نئے ملک میں آنا مبارک ہو، پاکستان زندہ باد قائد اعظم پائندہ باد، پاکستان میں آنے پر خوش آمدید، چھوٹے چھوٹے بچے جھوم اٹھے، ہر بچہ اپنے انداز میں چیخ رہا تھا آ گئی امی جان آ گئی، ابو آ گئے میرے ابو آ گئے۔ ریل کے پٹڑیوں کی دونوں جانب لوگ ایک دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ رکھے قطار میں کھڑے تھے اور سبھی کی نظریں ٹرین پر مرکوز تھیں، بہت سوں کی آنکھوں سے آنسوں کی لڑیا جاری تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ان لوگوں کو منزل مل چکی ہو۔

کوئی کیتلی لٹکا کر ٹرین کی طرف دکھا رہا تھا کہ اگر کوئی اپنا ہو تو وہ پہچان لے گا، تو کوئی اپنا دوپٹا فضا میں ہلا رہا تھا، کسی نے اپنے نونہالوں کو کندھوں پر بٹائے تھے تو کوئی پاکستانی پرچم فضا میں بلند کئے ہوئے تھا۔ ٹرین اب پاکستان کی حدود میں داخل ہو چکی تھی، لوگوں کے فلک شگاف نعرے عروج پر تھے، ٹرین تیزی کے ساتھ ان لوگوں کے بیچ میں سے گزر کر کچھ فاصلے پر رک گئ، جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے وہ افراتفری کے عالم میں اپنا سامان اٹھا لائے اور سارے لوگ ٹرین کی طرف بھاگ آئے۔

ٹرین میں ابھی تک خاموشی چھائی ہوئی تھی اس میں سے کوئی ایک شخص بھی نہیں اترا اور نہ کسی نے کوئی شور سنا۔ شائد ٹرین میں بیٹھے یہ لوگ تھکے اور بھوک سے نڈھال ہوں اس لئے وہ اتر نہیں پا رہے تھے۔ لوگ ٹرین کے اندر گئے تو کچھ ہی لمحوں میں منظر تبدیل ہوا، وہی لوگ جو اب سے کچھ دیر پہلے خوشی کے مارے چیخ رہے تھے اب ان کی یہ چیخیں غم میں بدل گئیں، ٹرین میں ان کے رشتہ دار ضرور تھے لیکن وہ سارے موت کی نیند سلا دۓ گئے تھے۔

کسی کا ہاتھ کٹ چکا تھا تو کسی کی ٹانگ، کسی کا دھڑ سر سے جدا تھا تو کسی کا بازو جسم سے دور پڑا تھا۔ ٹرین میں بمشکل ہی کچھ لوگ زندہ بچے تھے لیکن ان میں بھی کوئی بےہوش تھا اور کوئی آخری سانسیں لے رہا تھا۔ ٹرین کسی میدان جنگ کا سما پیش کر رہی تھی جہاں چاروں طرف لاشیں ہی لاشیں پڑی تھیں کوئی آخری سانسیں لے رہی تھی اور فریادِ کناں تھیں مکھیاں لاشوں کو بھنبھوڑ رہی تھیں۔

اس فلک نے یہ منظر بھی دیکھا جو نئے ملک کا خواب دیکھنے والوں کو صرف اس ملک میں آخری سانسیں ہی نصیب ہوئیں۔

کسی شاعر کے یہ اشعار ان لوگوں پر صادق آتے ہیں کہ

تشنگی اپنی نصیبوں میں لکھی تھی ورنہ

فاصلہ کچھ بھی نہ ہونٹوں سے پیمانے تک۔

فضا اب موجود لوگوں کی آہ و فغا سے گونج اٹھی تھی۔ وہ چھوٹے چھوٹے بچے جو اب سے توڑی دیر پہلے امی آ گئی، ابو آ گئے وغیرہ کہتے ہوئے دیکھائی دے رہے تھے ابھی اپنے گھر والوں سے لپٹ لپٹ کر رو رہے تھے، یہ منظر دیکھ کر لوگوں کے ہوش وہ حواس ان کے قابو میں نہ رہے عورتیں بے ہوش ہو گئیں تھیں، بچے روتے روتے ہلکان ہو چکے تھے۔ وہ چہرے جن پر کچھ دیر پہلے ترو تازگی نمایا تھی اب وہ غم کی تصویر پیش کرنے لگے تھے۔ سارے لوگ جیتے جی مر چکے تھے۔

اگر ان کے بس میں ہوتا تو وہ یہی خود کو زمین میں دھنسا دیتے لیکن یہ آزمائشیں ان کی نصیبوں میں لکھی تھیں شائد۔ اس ماں کی مامتا کی حالت ناقابلِ بیاں ہے جو اپنے نونہالوں کو اس غرض سے لائی تھیں کہ اس کے ابو آ رہے تھے اور یہ استقبال کیلئے گئے تھے لیکن ٹرین میں اس کے ابو کی لاش بکھری پڑی تھی۔ ماں نے بچوں کو نہیں بتایا لیکن جب بیٹے نے پوچھا کہ امی جان ابو آ چکے کہ نہیں؟ تو وہ بمشکل ہی خود کو ضبط کر سکی اور انہیں جھوٹی تسلی دی کہ بیٹا وہ اگلی ٹرین میں آئینگے۔

ایسے کتنے نونہالان چمن تھے جن کو اگلی ٹرین کا بہانا بنا کر بہلا دئے گئے لیکن انہیں کبھی یہ اگلی ٹرین نہیں دیکھی کھبی بھی۔ یہ کوئی سنی سنائی کہانی نہیں یہ حقیقت پر مبنی ایک ناقابل فراموش داستان ہے جو پاکستان کی آزادی کے باب میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رقم ہو چکی ہے۔ ہمیں یہ آزادی ماں کی گود میں نہیں ملی بلکہ اس کیلئے ہمارے اباؤ اجداد نے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ سر زمین پاکستان کی بنیادوں میں لاکھوں مسلمانوں کا خون شامل ہے۔

ہماری پچھلی نسلیں آگ کے انگاروں سے گزرے ہیں تب جا کر یہ آزادی ملی ہے۔ ان کو کتنی اذیت ناک دور سے گزرنا پڑا یہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ آج ہم بھی محبِ وطن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن آج ہماری یہ حب الوطنی 14 اگست کے دن کو مال روڈ، بادشاہی مسجد، فیصل مسجد، مینار پاکستان، مری، ناران اور کاغان وغیرہ جا کر وہاں ناچنے اور ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے تک محدود ہے۔

ہماری یہ حب الوطنی کسی سیاسی لیڈر پر سر اور دھڑ کی قربانی پر تیار ہونے تک محدود ہے، ہماری یہ حب الوطنی سکولز، کالجز اور یونیورسیٹیز میں ڈھول کی تاپ پر مبنی فنکشنز منعقد کرنے تک محدود ہے، ہماری یہ حب الوطنی سوشل میڈیا پر ہیپی اینڈی پینڈینس ڈے کی پوسٹ شئیر کرنے تک محدود ہے۔ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ یہ جان سکیں کہ یہ ملک کیوں وجود میں آیا، یہ ملک کیسے وجود میں آیا؟

اس ملک کو وجود میں لانا کیوں ضروری تھا، اور اب یہ ملک ہم سے کیا مطالبات رکھتا ہے، ہمارا اس ملک پر کیا حق ہے، بطور پاکستانی شہری ہم پر کونسی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ ان سب سے ہمارا کوئی سروکار نہیں کیونکہ ہماری ذمہ داری تو ٹک ٹاک پر دھڑا دھڑ ویڈیوز اپلوڈ کرنا ہے تاکہ فیمس ہو سکیں، ہماری ذمہ داری تو رات کے اندھیرے سے لے کر دن کے اجالے تک پب جی کھیلنا ہے تاکہ رینکنگ بڑھ سکے، ہماری ذمہ داری مال روڈ پر جا کر "بنے گا نیا پاکستان" کے گانے کیلئے ناچنا ہے۔

ہم نے اگر یہ کیا تو ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا لیکن اگر ہم ان میں پھیچے رہ گئے تو ہم سے ساری ذمہ داریاں پوری نہ ہو سکیں۔ آج نوجوان نسل اسی بے اعتنائی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے آٹھ کروڑ نوجوان رکھنے والی آبادی میں کوئی ایسا لیڈر نہ بن سکا جو ملک کو نئے سرے پر استوار کر سکے، کوئی ایسا اکانومسٹ نہ بن سکا جو ملک کی لڑکھڑاتی معیشت کو سہارا دے سکے، کوئی ایسا وزیر خارجہ نہ بن سکا جو پاکستان کی دنیا میں ایک نئی تصوری کے ساتھ پہچان کرا سکے۔ خوابِ غفلت میں سوئے ہوئے یہ نوجوان پتہ نہیں کب انگڑائی لینگے، پتہ نہیں کب؟

Check Also

Ahal e Riwayat Aur Kar e Tajdeed

By Muhammad Irfan Nadeem