1.  Home/
  2. Blog/
  3. Yaseen Malik/
  4. Ayyam e Deewangi (7)

Ayyam e Deewangi (7)

ایامِ دیوانگی (7)

میرے آیامِ دیوانگی کی اس آپ بیتی میں جو حالات تحریر کئے گئے ہیں یہ جوانی کی دیوانگی کے زمانے کے ہیں۔ جب ہوش آیا تو میرے اندر کا جانور مرگیا جس سے میں اپنے ہی نظریوں کا حریف بن گیا اور اس کے بعد میرے خیالات نے عجیب و غریب نشیب و فراز دیکھے۔ میں کل تک جن باتوں کو حرفِ آخر تصور کرتا رہا آج وہ میری نظر میں حرفِ غلط کی طرح کھٹکتے رہتے ہیں۔ کل تک میخانے و جام کا ذکر کرنے والے شعرا میری نظر میں اہم مقام رکھتے تھے لیکن آج ان کی باتیں وقت کا ضایع لگتا ہے۔

ان باتوں کو صرف کسی فانی و خاکی انسان کے پیچھے صفحہ قرطاس پر لائی گئی ہیں میں سوچتا ہوں کہ اللہ نے شاعروں کو ایک عظیم ہنر عطا کیا ہے جو کسی بھی بات کو ایک دلکش پرائے میں بیان کرکے لوگوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، یہ زمین و آسمان کے پوشیدہ اور ظاہری باتوں کو ایک مخصوص شکل میں بیان کرسکتے ہیں، یہ قدرتی نظاروں کا ایک مسحور کن تصویر کھینچ سکتی ہے۔ لیکن آفسوس کہ اس کے پیچھے شاعر کا مطلب لوگوں کے سامنے اس شخص کے پیچھے اپنی تڑپ کو بیان کرنا ہوتا ہے جس کی حسن کو دوام نہیں ہے اور جس کو ایک دن خاک ہونا ہے۔

میں سوچتا ہوں کہ شاعر اپنے اس عظیم ہنر کا استعمال کسی ایسے دائمی مقصد کیلئے کیوں نہیں کرتے جس سے معاشرے کو فائدہ ہو، جس سے لوگوں کی سوچ میں مثبت بدلاؤ آجائے، جس سے خالات کے سامنے مایوس لوگوں کو سہارہ مل سکے، جس سے لوگوں کو اللہ و نبی کو پہچاننے میں مدد مل سکے، جس سے لوگ مخلوق کی ظاہری و فانی حسن کی بجائے اللہ و نبی اور اس کے احکام کو بجا لانے کی حسن سے متاثر ہوجائے تاکہ مرنے کے بعد بھی ان کی شاعری سے لوگ فیضیاب ہوسکے جس طرح کہ ہمارے شاعر مشرق علامہ محمد کی شاعری جو آج بھی سوئے ہوئے قافلوں کیلئے بانگِ دارا ثابت ہوتی رہی ہے اسی طرح مولانہ ظفر علی خان کی انقلابی شاعری وغیرہ ان شخصیات کی شاعری ملک و قوم کیلئے تھی اسلئے یہ آج بھی ہر مکتبہ فکر کی ترجمانی کرتی ہے ان کے علاوہ برصغیر کے وہ شاعر جنہوں نے کسی انسان کے زلفوں کا اسیر ہوکر شاعری کو صفحہ قرطاس پر لائی ہے ان کی شاعری آج اہل دل والوں کی ترجمانی تو کرسکتی ہے لیکن کسی کاروباری طبقے یا منبر و محراب سے تعلق رکھنے والے معزز علما وغیرہ کی ترجمانی نہیں کرسکتی باوجود یہ کہ کاروبار کرنے والا بھی قوم و معاشرے کا فرد ہے جس کو اصلاح کی ضرورت ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ شاعر اگرچہ اپنی شاعری کے ذریعے مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں لیکن اگر اس شاعری میں کسی فانی انسان کے ناز و نیاز کے قصے ہو، اس میں سورج کو کسی خاکی انسان سے تشبیہ دی گئی ہو، اس میں مے خانے کو اعلٰی مقام حاصل ہو، اس میں شراب کو آبِ حیات کہا گیا ہو، اس میں ساقی کو غموں سے نجات دلانے والا شخص قرار دیا گیا ہو تو ایسی شاعری کا کیا فائدہ۔

فیض احمد فیض کا وہ مے خانہ آج کہاں ہے جس میں دل کو سرور حاصل ہوتا تھا، حسرت موہالی کے زمانے کا وہ نازنین آج کہا ہے جس سے عشق کرتے کرتے حسرت موہالی نے ساری عمر احتیاط میں گزاردی، مراد آبادی کے وہ خیالات آج کس کھونے میں بیٹے سسکیاں لے رہی ہیں جو

طبیعت عشق کی خود دار بھی ہے

ادھر نازک مزاج یار بھی ہے

کی صدائیں لگا رہے تھے، فراق کی وہ شام کیا سحر میں بدل چکی یا نہیں جس کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ

"شامِ غم کچھ اس سراپا ناز کی باتیں کرو

بے خودی بڑھتی چلی ہے راز کی باتیں کرو

اس طرح کی شاعری کسی انفرادی شخص کے لئے وقتی طور پر تو مفید ہوسکتی ہے لیکن یہ کسی قوم و معاشرے کی مستقبل کے لئے رہنمائی میں کردار ادا نہیں کرسکتی۔

شاعر اگر پیسے کمانے کی خاطر اپنی شاعری کو کتاب کی شکل دے کر پیسے کمانا چاہتا ہو تو الگ بات ہے ورنہ اگر شاعر سمجھتا ہے کہ کسی عورت کی حسن کی تعریفیں کر کے اس طرح وہ معاشرے کی خدمت کرتا ہے تو یہ سراسر غلط بات ہے۔ کتنا اچھا ہوتا کہ شاعر لوگ اپنے ان صلاحیتوں کو ملک و قوم اور معاشرے کے فائدے کیلئے استعمال کرتے ناکہ کہ کسی فانی انسان کیلئے جو ایک دن مٹی میں تحلیل ہونے والا ہے۔

قوموں کی زندگیاں ہمیشہ رہتی ہے اور یہی قوم افراد کا مجموعہ ہے لیکن قوموں کو زندہ لوگوں اور مرے ہوئے لوگوں کے وہ خیالات جو ان سے کتابوں کی صورت میں رہ چکے ہیں کی ضرورت ہوتی ہے قوم کو کسی گزرے ہوئے کل اور انسانوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آج اس قوم کو شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال کی لاش کی ضرورت نہیں بلکہ آج قوم کو ان کے خیالات کی ضرورت ہے جو وہ شاعری کی صورت میں اپنے پیچھے چھوڑ چکے ہیں آج اس کی شاعری ہی تحریک پیدا کرسکتی ہے ناکہ کہ اس کی قبر اور تصویریں وغیرہ۔

تو اگر چھوڑے ہوئے خیالات میں کسی حسنِ فانی کی تمہیدیں باندھی گئی ہو تو یہ معاشرے کیلئے فائدہ مند کیسے ہوسکتی ہے بلکہ میں تو یہی کہونگا کہ الٹا یہ معاشرے کیلئے ناسور بھی ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ یہ عاشق کو اور بھی اپنے عقیدے پر ثابت قدم رکھنے کیلئے امادہ کرتا ہے اور خدا ناخواستہ عاشق خودکشی پر بھی اتر آسکتا ہے جو کہ دونوں جہانوں کی بربادی ہے۔

میرا مطلب یہ نہیں کہ اب اس کی خودکشی کی ذمہ دار شاعر کے وہ خیالات ہے جو اس نے شاعری کی صورت میں چھوڑے تھے اور جیسے پڑھ کر اب اس اسیرِ زلف نے خوکشی کرلی، کتاب کو پڑھ کر کوئی خودکشی توڑی کرے گا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک اچھی کتاب ایک اچھی منزل کی رہنمائی کرسکتی ہے۔ پس کیوں نہ کہ ہم ایسی کتاب لکھے جو رہنمائی کرنے کے لائق ہو نہ کہ کوئی ایسی کتاب جو راہ سے بھٹکنے میں مددگار ثابت ہو۔

Check Also

Eid Aur Aabadi Qasba

By Mubashir Aziz