Tuesday, 07 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Yaseen Malik/
  4. Ayyam e Deewangi (6)

Ayyam e Deewangi (6)

ایامِ دیوانگی (6)

جب میں چھوٹا تھا تو جس چیز کا بھی مطالبہ کرتا میرے ماں باپ اس کو میرے سامنے رکھ دیتے کبھی تو ایسا بھی ہوا کہ چھوٹی سے نقص کیوجہ سے میں نے وہ چیز مسترد کردی اور خلافِ توقع کی اس چھوٹی سی واردات پر بھی میں بلک بلک کے رو پڑتا تھا لیکن جب ہوش سنبھالا تو اندازہ ہوا کہ زندگی میری باپ کی جاگیر تھوڑی ہے جس میں ہر چیز میری توقع کے مطابق مجھے یوں ہی ملتی رہے جس طرح بچپن میں مل جایا کرتی تھی۔

بہرحال ان ہی دنوں میں کچھ تو اس نامراد محبت نے مجھے احساس کمتری میں مبتلا کردیا تھا اور کچھ تو مفلسی کی بے رحم موجوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ان حالات سے گزر کر میرے اندر دوسرے انسانوں کے لئے رحم کا مادہ ابھرنے لگا۔ مجھے احساس ہوا کہ بدقسمتی اور بدنصیبی کا ایک اہم عنصر غربت اور مفلسی بھی ہے بآلفاظ دیگر غربت بھی ایک طرح کی بدقسمتی اور بد نصیبی ہے۔

محبت اور غربت کا یہ فلسفہ جان کر اب میں کہتا ہوں کہ خدا کسی بدنصیب کو محبت کی آزمائش سے بچائے۔ کسی بدنصیب کیلئے اس کی بدنصیی کا آزمائش ہی کافی ہے۔ اسی طرح کسی غریب اور نادار آدمی کو بھی، اس کے لئے بھی غربت کی آزمائش کافی ہے۔ لیکن کچھ لوگ تو واقعی انہی آزمائشوں میں پڑ جاتے ہیں جن میں سے کوئی ایک بھی کسی کی ہستی بستی زندگی کو ویران کرنے کیلئے کافی ہوتی ہے۔

یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ محبت غم و آلم، بے چینیوں اور پریشانیوں کا دوسرا نام ہے محبت کی شمع پر جل کر راکھ ہونے والے پروانے کی نظر میں وہ محبت کا شمع ہی نہیں ہوتا جو جلانے کی صلاحیت سے عاری ہو۔

اہل دل اس کو دل نہیں کہتے

جو تڑپتا نہ ہو کسی کیلئے

محبت کے انگارے سے گزر کر ہر انسان اس بات کو محسوس کرنے کا اہل ہوجاتا ہے کہ محبت میں آنسوؤں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور نہ محبت کی تڑپ کو فقط آنسوؤں بہانے سے کم کیا جاسکتا ہے۔ محبت ایک ایسی جادو ہے جو یار کے سامنے تو بے اثر ہوکر رہ جاتی ہے لیکن یار سے کچھ لمحے کے دوری پر سر چھڑ کر بولنے لگتا ہے۔

اگر اپ نے کسی کو دل سے چاہا ہے لیکن ابھی تک اپ کے آنکھوں سے ایک قطرہ بھی نہیں گرا تو یہ فقط دل لگی ہے چاہت نہیں یا پھر چاہت ہے پر اس میں وہ شدت نہیں ہے جس پر اہل دل والوں سے محبت کا مہر لگائی جاسکے۔

مجھے کہنا چاہئے کہ عشق ایک سمندر ہے جس میں بے شمار کشتیاں سفر کرتی نظر آتی ہیں ان کشتیوں میں سے کچھ میں تو فقط عشاق (جو دل دے بیٹنے والے لوگ ہے) نظر آتے ہیں اور کچھ کشتیاں ایسی بھی ہے جن میں عاشق اور معشوق دونوں سوار ہے لیکن ان کو منزل کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔

کچھ تو منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی غرقاب ہوجاتے ہیں اور کچھ منزل کے بعد پارہ پارہ ہوجاتے ہیں کیونکہ ان پر راستے میں ایسے طوفان آچکے ہوتے ہیں کہ وہ منزل تک پہنچ تو جاتے ہیں لیکن اس کے بعد ان میں اتنی ساکت نہیں رہتی کہ وہ خود کو اپنی سالم خالت میں رکھ سکے۔

مجھے یہ بھی کہنا چاہئے کہ کسی پر فدا ہونے والا شخص بظاہر تو صاحب بصیرت اور صاحب بصارت نظر آتا ہے لیکن اصل میں وہ ان چیزوں سے محروم رہتا ہے، کیونکہ اس کو ہر چیز میں محبوب ہی نظر آتا ہے وہ اکثر محبوب ہی کی زلفوں کے بارے میں سوچتا رہتا ہے اور باہر کے ماحول میں کیا چل رہا ہے اور کیا ہورہا ہے ان سب سے وہ نآشنا رہتا ہے یا پھر اگر آشنا رہتا بھی ہے تو وہ ان کی طرف توجہ نہیں دیتا۔

بہرحال محبت کی بھٹی میں جل کر مجھے محبت کے بارے میں جو تجربہ ہوا میں تو اس کے بعد یہی کہونگا کہ محبت ایک ہستے بستے دل کو کھنڈر میں بدل دیتا ہے ایک ایسا چمن جو پھولوں اور عندلیبوں سے بھرا رہتا ہے اس پر جب محبت کی خزاں آتی ہے تو وہ پت جھڑ کا منظر پیش کرنے لگتا ہے اور ایسے حالات میں عندلیب (بلبل) اس کو چھوڑ جاتے ہیں اس کے پھول سوکھ جاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہاں پر کبھی بہار گزری ہی نہیں ہے یہاں پر کبھی بہار کا سا سماں تھا ہی نہیں۔

یا پھر لڑائی اور جنگوں سے شغف رکھنے والوں کی نظر میں وہ دل ایک ایسے میدان کا منظر پیش کرنے لگتا ہے جس پر ابھی لڑائی گزری ہو اور ہر طرف امیدوں اور آرزوؤں کی لاشیں بکھری پڑی ہو جس پر سے مکھیاں اڑ رہی ہو اور چاروں طرف سے آہ و فغاں کی صدائیں سنائی دیتی ہو۔

Check Also

Magar Aik Maa Nahi Manti

By Azhar Hussain Azmi