1.  Home/
  2. Blog/
  3. Yaseen Malik/
  4. Ayyam e Deewangi (5)

Ayyam e Deewangi (5)

ایامِ دیوانگی (5)

دارِ یار میں ہم دیوانوں کی طرح ٹھوکریں کھاتے رہے اور امیدیں دیدارِ یار کا لئے پھرتے رہے لیکن کبھی بھی ملاقات کا شرف نصیب نہیں ہو سکا۔ مجھے پتہ ہے کہ وہ لوگ اکثر اس کی چہرے پہ نگاہیں مرکوز کرتی ہونگی جن کے ہاں اس کی چنداں اہمیت نہیں ہو گی۔ ورطہ حیرت میں ڈالنے والی بات تو یہ ہے کہ اتنی تگ و دو کے بعد بھی مجھے دیدارِ یار نصیب نہیں ہوتا تھا۔ میں اس کے کتنا قریب جاتا؟

اس کے شہر کی گلیوں میں آوارہ گردوں اور پاگلوں کی طرح پھرتا تھا لیکن ایک دن بھی یہ اتفاق نصیب نہ ہوا جس میں سامنا یار سے ہو۔ لے دے کے جب یہ آوارگی معمول بن گئی تو دلِ ناداں کا ضمیر جاگ اٹھا کہ یہ تو نے کیسا پاگل پن شروع کر رکھا ہے یہ تو ایسا پاگل پن ہے جس سے دامن پہ دائمی داغ لگ سکتا ہے، تب جا کر دارِ یار میں آوارگی کا یہ سلسلہ کچھ ماند سا پڑ گیا اور مزید دلِ ناداں نے یہ بے معنی مطالبات کرنا چھوڑ دیئے۔

تب جا کر بد نصیبی نے (جب میں یہ بھول چکا تھا کہ میں بد نصیب ہوں) صدا دی اور اپنی موجودگی کا احساس دلایا جس سے دل کے کسی حد تک بھرے زخم پھر سے تر و تازہ ہوئے۔ ہوا کچھ ایسا کہ یار کو خبر ملی کہ اس کے پیچھے میں مجنوؤں کی طرح بھٹکتا رہتا ہوں بس یار کا اس راز سے آشنا ہونا تھا کہ میری ایک اور آزمائش کا آغاز ہوا۔ اب تک تو میں یار کی بے خبری میں سب کچھ کر رہا تھا اور سہہ رہا تھا جس کیلئے کچھ امید تھی کہ میری یہ جستجو ایک دن رنگ لائے گی۔

لیکن جب یار اس رازِ محبت سے آشنا ہوا تو باطنی تو کیا اس کی ظاہری صورت پر بھی کسی طرح کے کچھ بھی اثرات ظاہر نہ ہوئے سادہ الفاظ میں میرے اظہارِ محبت پر وہ ٹھس سے مس تک نہ ہوا اور یار کی اسی جمودی رویے نے مجھ کو پوری طرح اندر سے کھوکلا کر کے رکھ دیا۔ اب تک تو میں صرف محبت کی لفظ سے آشنا تھا لیکن اس کے بعد میں محبت کا پورا فلسفہ سمجھ گیا کیونکہ میں محبت سے جڑی کچھ نئی چیزوں سے واقف ہوا۔

میں یار کی لاپرواہی سے بھری اداؤں سے آشنا ہوا، لفظ جفا سے زندگی میں اب تک واسطہ تک نہیں پڑا تھا لیکن اب اس کا پورا مفہوم جان گیا اس طرح اور بھی بے شمار ایسی چیزوں سے واسطہ پڑا جن کو پہلے میں جانتا تک نہیں تھا لیکن اب ان کا پورا فلسفہ جان گیا۔ یار کی ادائیں اور جفائیں دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ شاعر لوگ ہمیشہ صرف درد کو ہی الفاظ کے بہترین پرائے میں کیوں پروتے ہیں وہ صرف محبوب کی اداؤں کا ہی رونا کیوں روتے ہیں۔

ان کے اشعار میں صرف شبِ وصل ہی کا تذکرہ کیوں ہوتا ہے، وہ فقط بہار کی رت سے ہی شغف کیوں رکھتے ہیں، وہ فقط پروانے کی راکھ ہو جانے پر ہی واویلہ کیوں کرتے ہیں حالانکہ وہی شمع تو روشنی بھی دیتی ہے جو اسی پروانے کے جلنے کا سبب بنتی ہے، لیکن شاعر لوگ صرف پروانے کے جلنے پر ہی نظریں مرکوز کیوں کئے رکھتے ہیں۔ اب اگرچہ مجھے شاعروں کے ان رویوں سے سخت نفرت ہے لیکن آیامِ دیوانگی میں مجھے شاعروں کی یہ بے بنیاد اور خیالی باتیں بہت پسند تھیں۔

بہرحال غم و الم کا زمانہ بچپن میں ہی قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا، بچپن ہی میں زندگی کے اونچ نیچ سے آشنا ہوا، مقدور بھر کوشش اور جدوجہد کے باوجود بھی جب مطلوبہ نتائج نہ دیکھے تو ہار جیت کے فسانے سے آشنا ہوا، پہلی دفعہ احساس ہوا کہ زندگی میں صرف جیت نہیں ہوتی ہار بھی ہوتی ہے، زندگی کوئی بھینس تھوڑی ہے کہ جس کو لاٹھی سے جدھر جاہے ہانک کر موڑلیں۔

جب میں چھوٹا تھا تو جس چیز کا بھی مطالبہ کرتا میرے ماں باپ اس کو میرے سامنے رکھ دیتے کبھی تو ایسا بھی ہوا کہ چھوٹی سی نقص کی وجہ سے میں نے وہ چیز مسترد کر دی اور خلافِ توقع کی اس چھوٹی سی واردات پر بھی میں بلک بلک کے رو پڑتا تھا لیکن جب ہوش سنبھالا تو اندازہ ہوا کہ زندگی میری باپ کی جاگیر تھوڑی ہے جس میں ہر چیز میری توقع کے مطابق مجھے یوں ہی ملتی رہے جس طرح بچپن میں مل جایا کرتی تھی۔

Check Also

Netflix Ka Aik Naya Dramayi Silsila

By Nusrat Javed