1.  Home/
  2. Blog/
  3. Yaseen Malik/
  4. Ayyam e Deewangi (4)

Ayyam e Deewangi (4)

ایامِ دیوانگی (4)

سر آمان اللّہ کا وہ زمانہ بھی ہم نہیں بھولے کہ جب وہ کسی شعر کی تشریح کرتے تو ہمارے کلاس کے ایک طالب علم سے ضبط نہ ہوتا اور بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہو جاتے۔ اج میں سوچتا ہوں کہ بے چارے اس طالب علم کا اب کیا حال ہوچکا ہو گا؟ کیا اس کو منزل مل چکی ہوگی یا نہیں؟ کیا وہ ساحل تک پہنچ بھی چکا ہوگا یا نہیں؟

سکول کے زمانے میں اگرچہ مجھے گنتی کے فقط چند ہی استاد ایسے ملے جنہوں نے نہ صرف میری بلکہ ہر طالب علم کی زندگی کو سنوارنے میں کردار ادا کی۔ بہرحال یہی وہ زمانہ تھا، جب میں دیوانگی کے زمانے میں نیا نیا داخل ہوا تھا۔ اس سے پہلے میں پیار و محبت کی باتوں سے نآشنا تھا، حتٰی کہ ان باتوں سے مجھے سخت نفرت تھی، لیکن کیا خبر تھی کہ اسی رویے پر ایک دن مجھے پچھتانا پڑےگا۔

اب چونکہ میں اپنے اپ کے ساتھ یہ تسلیم کرچکا ہوں کہ وہ زمانہ پاگل پن اور دیوانگی کا زمانہ تھا۔ اسلئے میں نے ان آیام کو آیامِ دیوانگی کا نام دیا ہے، میرے ان آیام کو اپ شبِ وصل کی گھڑیاں بھی کہہ سکتے ہیں۔ دراصل یہ ان دنوں کا ذکر ہے، جس میں، میں کسی انسان کے زلفوں کا اسیر ہوچکا تھا، اسیرِ زلف ہوکر میں انہی آیامِ دیوانگی میں روز اس شہر بے پرواہ کی راہوں کو تھکتا تھا، جس میں یار رہتا تھا۔

آسمان میرا تماشائی تھا، سورج مشعل راہ تھی اور زمین میرے لئے راہبر بنی ہوئی تھی۔ سب کچھ ساتھ دے رہا تھا لیکن صرف ایک چیز تھی، جو روٹھی تھی اور ماننے کیلئے تیار ہی نہیں تھی اور وہ تھی قسمت، جس کو پانے کیلئے میں نے کیا کچھ نہیں کیا۔ گرمی ہو یا سردی دارِ یار کا چکر لگانا میرا بہترین مشغلہ بن چکا تھا۔ حتٰی کے اس شہر بے پرواہ کی ایک ایک گلی سے کئی بار گزر ہوتا اور یہی وجہ تھی۔

کہ اس شہر کے گھروں کی ایک ایک اینٹ مجھے یاد تھی یہ تو چھوڑیئے میں تو ذہن میں اس شہر بے پرواہ کا مکمل نقشہ دماغ میں لیئے پھیرتا تھا، فلانہ گلی میں دائیں جانب کتنے گھر ہیں، اور بائیں جانب کتنے گھر ہیں، فلانہ گھر کے دروازے کا رنگ کیسا ہے اور فلانہ گھر میں کونسا درخت ہے وغیرہ یہ سب میرے دماغ میں نقش تھے۔ یہاں تک تو پھر بھی ٹیک ہے میں نے تو اس درسگاہ کو بھی رزمِ پناہ سمجھ کر اپنا ٹھکانہ بنایا تھا۔

جس میں کہی محبوب کی تربیت ہوئی تھی۔ ایک دن تو میں نے حد ہی کردی۔ میں نے اپنے دوستوں (جو میرے ہمراز تھے اور اکثر دارِ یار میں میرے ساتھ جاتے رہتے تھے) کے ساتھ مشورہ کیا کہ درسگاہِ جناں میں بھائی کیلئے داخلہ لینے کی غرض سے داخل ہونگے یہ تو فقط ایک بہانہ ہوگا اصل مقصد تو دیدارِ یار ہوگا، لیکن صد شکر کہ ہمیشہ کی طرح یہ ترکیب بھی کامیاب نہیں ہوئی اور اس دلِ ناداں نے اتنی سکت نہیں دکھائی۔

اگرچہ دارِ جناں کے ساتھ مجھے ایک اپنایت سی محسوس ہوتی تھی۔ لیکن اس کے باوجود بھی اس میں داخل ہونے پر میری جو کیفیت ہوتی تھی وہ قبضہ تحریر میں لانا ممکن نہیں ہے، لیکن اتنا ضرور کہونگا کہ جوں ہی میں دار یار میں قدم رکھتا تھا تو یہ نادان دل زور زور سے دھڑکنا شروع کر دیتا تھا، ہاتھ پھیر اس طرح کانپ اٹھتے جس طرح طالب علمی کے زمانے میں اکثر سارے کلاس اور ٹیچر کے سامنے بورڈ پہ سوال حل کرنے سے کانپتے ہیں۔

یا کسی امیدوار کا انٹرویو کے کمرے میں داخل ہونے پر ہوتا ہے یا ہزاروں لوگوں کے سامنے پہلی مرتبہ تقریر کرنے کیلئے سٹیج پر آنے سے ہوتی ہے۔ مجھے نہ صرف دارِ یار سے اپنایت محسوس ہوتی تھی، بلکہ اس کی ہر جاندار اور بے جان شے کے ساتھ بھی ایک عجیب سی اپنائیت کا احساس ہوتا تھا۔ دارِ یار میں رہنے والی ہر شے میری نظر میں خوش بخت تھی۔

اس کی مثال کیلئے اپ پرندوں کے بارے میں میرے احساسات ہی لیجئے میری نظر میں دارِ یار میں رہنے والے اور اس کے اوپر پرواز کرنے والے پرندے بھی اسلئے خوش قسمت تھے، کیونکہ ان کی نگاہیں روز میرے یار پہ پڑتی تھیں اور کبھی تو ان پر میرے یار کی نگاہیں۔ پرندے تو چھوڑئیے، میری نظر میں تو اس دار میں رہنے والے زندگی کی اونچ نیچ سے بے خبر جانور حتٰی کہ کتے بھی خوش قسمت تھے۔

جن کی نگاہیں روز صورتِ محبوب پہ پڑتی تھیں اور محبوب کا ان پہ میں سوچتا تھا کہ یہ جانور بھی کتنے خود غرض ہے۔ جو میرے لیئے زندگی کی اہمیت رکھنے والا انسان جب ان پہ نگاہ ڈالتی ہے تو یہ ان کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ دارِ یار میں، میں یوں ہی روز آوارہ گردوں کی طرح اپنے دوستوں کے ساتھ نہیں پھیرتا تھا۔ بلکہ سینے میں اس نادان دل کی تمنائیں و آرزوئیں اور گریہ وزاریاں دیکھ کر۔

اس نو عمری میں بھی بدنامی کے ان حطروں کو مول لینے پر مجبور ہوجاتا تھا۔ میں ہر ممکن کوشش کرتا کہ کسی طرح بھی ہو یہ دل بہل جائے اور فرقتِ یار کی درد و آلم سے نجات پائے۔ اس لئے میں اکثر یاروں کی محفلوں میں جاتا گپیں لگاتا اور کوشش کرتا کہ کسی طرح بھی ہو یہ دل مصروف رکھوں تاکہ اس کے اندر پٹنے والے غم کے لاوے سرد پڑ جائے، لیکن غم کے یہ لاوے سرد ہونے کے بجائے اور ہی پٹتے جارہے تھے۔

درد فرقت نے دل میں بڑے بڑے شگاف ڈالے تھے، آنکھوں سے آنسوں اس طرح گرتے تھے۔ جیسے فلک سے مینہ برستا ہے۔ کچھ تو وہ زمانہ بھی طفلِ شعوری کا تھا اور کچھ یہ دل نادانوں جیسی حرکتیں کرتا تھا یہ آہ و فغا کرتا تھا اور دیدارِ یار کی تمنا کرتا تھا۔ بس انہی خالات سے مجبور ہوکر نوعمری کا وہ سہانہ زمانہ ایک ایسے انسان کی نظر کردی، جس کو کبھی میرا نام بھی لبوں پہ لانے کا اتفاق نہیں ہوا۔

میں اپنے ہمنوا کے بارے میں سوچتا رہتا تھا کہ ایسے لوگ بھی کتنے ناسمجھ ہوتے ہیں کہ ان لوگوں کی محفلوں میں تو شب و روز چراغِ محفل بنے رہتے ہیں۔ جن کے پاس ان کی چنداں اہمیت نہیں ہوتی، لیکن ان لوگوں کے سامنے یہ آنا پہ اتر آتے ہیں۔ جو ان پہ جان نچھاور کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ اس دنیا کا دستور ہے کہ جس چیز کی جتنی زیادہ اہمیت ہوگی اتنا ہی وہ ناپید ہوگا۔

ہوسکتا ہے کہ قرائین میں سے کوئی مجھ سے متفق نہ ہو، لیکن مجھے تو تب اندازہ ہوا جب دار یار میں ہم دیوانوں کی طرح ٹھوکریں کھاتے رہے اور امیدیں دیدارِ یار کا لئے پھیرتے رہے۔ لیکن کبھی بھی یہ شرف نصیب نہیں ہوا اور مجھے پتہ ہے کہ وہ لوگ اکثر اس کی چہرے پہ نگاہیں مرکوز کرتی ہونگی، جن کے ہاں اس کی چنداں اہمیت نہیں ہوگی۔

Check Also

Muhabbat Aur Biyah (2)

By Mojahid Mirza