1.  Home/
  2. Blog/
  3. Yaseen Malik/
  4. Ayyam e Deewangi (3)

Ayyam e Deewangi (3)

ایامِ دیوانگی (3)

اس دن میں زمین جوت رہا تھا کہ اچانک میں نے اپنا لنگوٹیے یار ثاقب کو دور سے آتے ہوئے دیکھا جس کے ہاتھ میں ایک درمیانے سائز کا حسن کارکردگی کا کپ اور ایک عدد رائٹنگ کاپی تھی۔ جب وہ قریب آیا تو میں اس سے ملا جب اس نے وہ کپ اور کاپی میرے حوالے کیا تو میری حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اس کے ساتھ ایک پیانو پین بھی تھا جس کو اس نے جیب سے نکال کر مجھے تھما دیا اور کہا کہ آپ سیکنڈ پوزیشن پر آئے ہیں۔

اس نے کہا کہ آج آپ اسکول آئے کیوں نہیں تھے؟ آپ کا نام پکارا گیا کہ آٹھویں جماعت کا طالب علم یٰسین شاہ (ایجوکیشنل ڈاکومنٹس میں میرا یہ نام ہے) آئے اور اپنا انعام وصول کرے لیکن آپ نہیں تھے تو اساتذہ نے یہ اشیاء مجھے دی کہ آپ اس کیلئے لے جائیے۔ بہرحال پہلے تو مجھے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ واقعی یہ میرے ہی ہیں، میں سمجھا شائد یہ اس ثاقب کی ہو اور یہ میرے ساتھ مذاق کر رہا ہو لیکن پھر جب اس کپ پر اپنا نام دیکھا تو یقین ہوا کہ واقعی یہ میرا ہی ہے۔

اس دن میری توقع کے خلاف یہ ماجرا دیکھ کر میں بہت خوش ہوا اور ساتھ ساتھ بہت حیران بھی کیونکہ یہ چیز میرے لئے کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں تھی۔ اس کے بعد اس کو لے کر میں گھر آیا تو گھر والے بھی بہت خوش ہوئے۔

"میرے والد نے مجھے سو روپے کا انعام بھی دیا تھا"۔

بہرحال اس واقعے کو یہاں تحریر کرنے سے میری مراد یہ نہیں ہے کہ میں اپنی تعریفیں کر رہا ہوں اور اپنے آپ کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہوں میں تو ایک نکمہ انسان ہوں جس کا اندازہ آپ کو آگے چل کر ہو جائے گا لیکن یہاں میری مراد صرف اور صرف یہ ہے کہ مجھ پر بیتے اس واقعے سے آپ یہ سبق حاصل کر سکیں کہ اگر واقعی محنت دل و جان سے کی جائے تو اس کا ثمر آپ کو ضرور ملے گا حتٰی کہ یہ پھل آپ کو ایسی صورت میں بھی مل سکتا ہے کہ شائد آپ کو اس کی توقع بھی نہ ہو لیکن وہ آ کے آپ کے ہونٹوں کو چوم لے۔

وہ جو کہتے ہیں کہ محنت اتنی خاموشی سے کرو کہ تمہاری کامیابی شور مچا دے، یہ بجا کہتے ہیں۔ محنت ضرور رنگ لاتی ہے یہ کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ آپ اگر کسی برے کام کو سر انجام دینے کیلئے بھی محنت کرتے ہیں تو اس میں بھی کامیابی یقیناََ ملتی ہے البتہ وہ الگ بات ہے کہ ہر برا کام ناجائز ہوتا ہے اور جس پر آدمی گناہ گار ہو جاتا ہے جس کا مواخذہ روزِ آخرت ہو گا لیکن محنت کا پھل کسی بھی انسان کو ضرور ملتا ہے۔

بہرحال آٹھویں جماعت میں سیکنڈ پوزیشن کے ساتھ کامیاب ہونے کے بعد میں اور میرے دوست ثاقب نے اکٹھے نویں اور دسویں جماعت کے لئے ہمارے گاؤں سے کوسوں دور ایک ہائی سکول میں داخلہ لیا۔ ہائی سکول کیا تھا ایک نئی زندگی کا آغاز تھا یہاں ہمیں نئے دوست ملے، ایک نیا ماحول ملا، ہماری طرح دور دراز سے آنے والے طالب علموں کی اس آماجگاہ میں مختلف قسم کے خیالات رکھنے والوں کے ساتھ مل بیٹھ کر زندگی گزارنے کا تجربہ ہوا۔

جو ہر طالب علم کو ہوتا ہے لیکن میں اپنے ربّ کا بے خد مشکور ہوں کہ میری طبیعت نے کبھی اس بات پر کسی سے کمپرومائز نہیں کیا کہ میں کسی کے خیالات سے اتنا متاثر ہوتا کہ اس کے رنگ میں رنگ جاتا۔ اللّہ ہدایت عطا کرے یہ طالب علموں کو علم ہو گا کہ سکول میں کس کس قسم کے طالب علم ہوتے ہیں اور ان میں ایسے کتنے ہوتے ہیں جن کے خیالات اور لائف اسٹائل آپ کے خیالات اور لائف اسٹائل سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ کمزور انسان اس طرح کے ماحول میں بہت جلد رنگ جاتا ہے اور بدقسمتی سے وہ سکول ہی کے زمانے سے زندگی میں غلط موڑ اختیار کر لیتا ہے۔

بہرحال ہماری کلاس کے طالب علموں کا حال یہ تھا کہ اس میں کوئی شعر و شاعری کے ادب سے تعلق رکھنے والا میر تقی میر تھا تو کوئی فیض احمد فیض تھا، کوئی مرزا غالب تھا تو کوئی بہادر شاہ ظفر وغیرہ۔ اس کے علاوہ گھروں میں بھارتی فلمیں دیکھ کر صبح کوئی شاہ رخ خان بن کر آتا تو کوئی سلمان خان، کوئی ٹائیگر شروف تو کوئی امیتا بچن وغیرہ اس کے علاوہ کوئی پاکستان آرمی کا کیپٹن تھا کوئی کرنل تو کوئی جرنل، کوئی آئی ایس آئی کا نظر نہ آنے والا سپاہی بننے کی خواب دیکھتا تو کوئی آئی بی کا ایجنٹ بننے کی خواہش لئے پھرتا، بعض تو اسی پر بھی اکتفا نہیں کرتے بلکہ آرمی چیف بننے کے خواب دیکھتے رہتے۔

ہماری کلاس کے دوستوں کا یہ سلسلہ اسی پر ختم نہیں ہوتا بلکہ ہمارے دوستوں میں اعلٰی سنگرز جیسا کہ علی ظفر، عاطف اسلم، ہنی سنگ یہاں تک کے ایک عدد نصرت فتح علی خان بھی موجود تھا جو کبھی کبھار ہمیں قوالیاں سنایا کرتا تھا۔ کچھ تو میں نے عمران عباس جیسا نظر آنے کی کوشش کرتے بھی دیکھے اس لئے کہ ان دنوں عمران عباس کا "خدا اور محبت" کا ڈرامہ بہت مقبول ہو چکا تھا۔

اس ڈرامے نے واقعی مجھے بھی بہت متاثر کیا تھا خاص کر وہ منظر جس میں وہ ریل گاڑی میں بیٹی ایمان کے پیچھے بھاگ رہا ہے اور بھاگتے بھاگتے بے خوش ہو جاتا ہے۔ اس ڈرامے نے مجھے ذہنی طور پر بے چین کر رکھا تھا۔ میرے ذہن میں ایمان کی موت نے آتنک مچھا رکھی تھی۔ میں بار بار سوچتا رہتا تھا کہ بے چارہ حماد اتنی تکالیف سہنے کے بعد پھر بھی تنہا رہ گیا۔ اس کے بعد جب میں نے ان دونوں کو گوگل پہ سرچ کیا اور ان کے ریئل لائف کی تصویریں دیکھیں تو مجھے تسلی ہوئی کہ یہ تو زندہ ہے اور خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔

بہرحال ہماری کلاس میں پشتو زبان کی مشہور فی میل سنگر نازیہ اقبال بھی تھی یہ دراصل ایک لڑکا تھا جو نازیہ اقبال کی آواز میں ہمیں گانے سناتا تھا۔ ہماری کلاس میں اگر ایک طرف ان اہلِ فن حضرات کی کوئی کمی نہیں تھی تو وہاں خافظ، قاری مجاہدین اور تبلیغ والے بھی موجود تھے۔ مجاہدین اور تبلیغ والوں کے مابین اکثر بحث و تکرار ہوتی رہتی اور اس تکرار میں دونوں طرف سے ٹھوس دلائل پیش ہوتے لیکن کوئی بھی اپنی غلطی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا تھا۔

ہماری کلاس میں ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے طالب علم تھے جن کے اپنے اپنے خیالات تھے لیکن اس کے باوجود بھی ہمارے اساتذہ کرام دل و جان سے پڑھاتے وہ ان سارے طالب علموں کو اچھی طرح ہینڈل کرنا جانتے تھے۔ اور یہی وجہ تھی کہ ہمیں یہاں پر بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ یہاں پر اسی سکول میں ہمیں اردو پڑھانے والے استاد سر آمان اللّہ کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی جو اردو کو کچھ اس انداز سے پڑھاتے جس سے سننے والوں کا اردو زبان سے ذوق پیدا ہو جاتا۔

یہی سر آمان اللّہ تھے جب ہمیں اردو کی کتاب میں حصہ غزل پڑھاتے تو اس کی تشریح کچھ اس انداز سے کرتے کہ بہادر شاہ ظفر کا محل اور قید خانہ آنکھوں کے سامنے عیاں ہو جاتا۔ فیض احمد فیض کے ساقی و مہ خانے کا منظر خیال میں اتر جاتا۔ احمد فراز کے اس شعر کے (ہم نے دیکھے ہیں بہاروں میں چمن کو جلتے، ہے کوئی خواب کا تعبیر بتانے والا) کی تشریح کچھ اس انداز سے کرتے جس سے خیال میں کچھ ایسا منظر سما جاتا جس میں بہاروں میں چمن سے اٹھنے والا دھواں صاف نظر آتا اور سوچنے والے کو واضح طور پر محسوس ہوتا کہ بہاروں میں جلتا ہوا چمن کوئی نیک شگون نہیں ہے۔

سر آمان اللّہ کا وہ زمانہ بھی ہم نہیں بھولے کہ جب وہ کسی شعر کی تشریح کرتے تو ہماری کلاس کے ایک طالب علم سے ضبط نہ ہوتا اور بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہو جاتے۔

جاری ہے۔

Check Also

Ghor Karne Walon Ke Liye Nishaniyan Hain

By Rabia Naz Chishti