Tuesday, 07 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Yaseen Malik/
  4. Ayyam e Deewangi (2)

Ayyam e Deewangi (2)

ایامِ دیوانگی (2)

وہ اسلئے کہ دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو نام نہاد عشق و محبت کے ان فسانوں سے کوسوں دور اپنی زندگیاں گزار رہی ہیں۔ ان ہی خوش قسمت لوگوں کے بارے میں کسی نے خوب کہا ہے کہ

نہ شوقِ دیدار کی طلب نہ فکرِ جدائی

کتنے سکون سے سوتے ہیں جو محبت نہیں کرتے

ان لوگوں کی زندگیاں ان لوگوں کے منہ پر تمانچا ہے جو محبت کو آکسیجن کا درجہ دیتے ہیں کہ بقول ان کے جس طرح آکسیجن کے بنا کوئی زندہ نہیں رہ سکتا اس طرح محبت کے بنا بھی جینا مشکل ہے۔ یہاں میں اس فطری محبت کا ذکر نہیں کر رہا ہوں جو کسی ماں کو اولاد سے ہوتی ہے یا کسی بہن کو بھائی سے وغیرہ۔ یہاں میں اس نام نہاد محبت کا ذکر کر رہا ہوں جس کا انجام ماں باپ کی عزت کو بالائے طاق رکھ کر گھر کی دہلیز پار کرنے کی صورت میں نکل جاتا ہے یا پھر جس میں جنسی تسکین کو محبت جیسے پاک جزبے کا نام دیا جاتا ہے اور پھر جنسی تسکین کے اسی پس پردہ محبت کو زندگی کیلئے ضروری قرار دیا جاتا ہے۔

بہرحال اس طرح کی محبت کوئی آکسیجن وآکسیجن نہیں ہوتی بلکہ یہ ان لوگوں کا کام ہے جو ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں اور تو کوئی کام ہوتا نہیں تو کسی کو دل دے کر اس طرح کے فسانے گھڑنے بیٹھ جاتے ہیں۔ جن لوگوں کی زندگیوں میں اگر کوئی اور غم نہ ہو تو وہ اس طرح کے غموں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے تو جب دماغ خالی ہوتا ہے تو کچھ نہ کچھ آ کے اس کو بھر ہی دیتا ہے اور شیطان کی تو ہر وہ چیز ساتھی ہے جو نیکی کی دشمن ہے اور یوں شیطان کا گھر ہو کر آپ کا دل برائی کے مہمانوں کی آماجگاہ بنا رہتا ہے۔

سنا ہے حسن کی تلوار کمزور دل و دماغ رکھنے والوں کو بہت جلد ختم کر دیتی ہے۔ اور یہ تو طے ہے کہ جو دل و دماغ خالی ہوتے ہیں وہ کمزور ہوتے ہیں کیونکہ ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ وہ وقتی تقاضوں کے تانے بانے بنتے رہتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر دل و دماغ نیوٹن یا آئین سٹائن کی دل و دماغ کی طرح کسی کری ایٹیو قسم کی سرگرمی میں مصروف نہیں ہوں گے اور سیب کے درخت سے سیب کا گرنا محسوس نہیں کرینگے تو کسی حسن کے فوارے سے نمودار ہونے والے چھینٹے تو ضرور محسوس کرینگے۔

اور اگر ان چھینٹوں کو محسوس کرنے کا فن کوئی سیکھ جاتا ہے تو اس سے آئین سٹائن بننے کی توقع کم اور احمد فراز اور فیض احمد فیض بننے کی توقع زیادہ رکھنا دانش مندی ہو گی۔ اس طرح کا دل و دماغ رکھنے والا انسان بے بس ہو کر محبت کو ایک ناقابلِ شکست بلا تسلیم کر لیتی ہے۔ میرا پیار و محبت کے ان فسانوں کو ناقابل تردید سمجھنے والوں سے کہنا یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو کسی کری ایٹیو کاموں میں مصروف رکھا کریں کیونکہ اسی صورت میں ہی اس طرح کی قلبی بیماریوں سے مخفوظ رہا جا سکتا ہے۔

بہرحال مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب میں آٹھویں جماعت کے امتحان کے رزلٹ کے دن اسکول نہیں گیا تھا۔ میں اسلئے اسکول نہیں گیا تھا کہ اس سال میں نے پیپر اچھے نہیں دئیے تھے اسلئے مجھے اس سال پوزیشن لینے کی امید نہیں تھی جیسا کہ میں پریپ سے لیتا آیا تھا۔ پس میں نے یہ سمجھ کر کہ میرا لنگوٹیا یار ثاقب (جو میرے بچپن کا دوست ہے اور جس کے ساتھ میں نے پریپ سے لیکر ڈی کام تک کی تعلیم اکھٹے حاصل کی) اسکول جا کر مجھے بھی رزلٹ کے بارے میں آگاہ کر دے گا۔

اس دن میں اپنے کھیتوں میں کام کر رہا تھا میرے ساتھ بلیک بیری کا پرانا ماڈل بٹنوں والا موبائل بھی تھا جس پر میں ہندوستان کے پرانے فلموں کے گانے سن رہا تھا، اس طرح کے سونگز میں اکثر سنتا رہتا تھا مثلاً یہ والا گانا کہ

پھول مانگوں نہ بہار مانگوں

میں تو صنم تیرا پیار مانگو

ایک اور گانا جس کو میں شوق سے سنتا تھا یہ تھا کہ

تم نے اگر پیار سے دیکھا نہیں مجھ کو

تو چھوڑ کے شہر میں چلی جاؤنگی

یہ سن کر میری زبان پر بھی بے اختیار یہ اشعار جاری ہو جاتے اور میں خیالوں اور خوابوں کی دنیا میں چلا جاتا اور یار اور دارِ یار کا نقشہ ذہن میں سما جاتا اور کچھ ایسا منظر ذہن میں چھا جاتا جس میں، میں یار کے دار سے بے سر و سامانی میں نکل رہا ہوتا ہوں اور لوگ مجھ پر ہنس رہے ہوتے ہیں اور پھتر برسا رہے ہوتے ہیں۔

ایک اور گانا جو میں سنتا تھا یہ تھا۔

یہ دعا ہے میری ربّ سے، تجھے عاشقوں میں سب سے میری عاشقی پسند آئے، میری عاشقی پسند آئے۔

یہ ایسے سونگز تھے جو اس دور کے تقاضوں کے مطابق ہر پیمائش پر پورے اترتے تھے۔ اس کے بعد تو نئے دور کے نئے تقاضوں کے مطابق فلمیں اور گانے بننا شروع ہوئیں جس نے نوجوانوں کو اپنی سحر میں مبتلا کئے رکھا انہیں دنوں کا ایک گانا جو بہت مشہور ہوا تھا اور جو چھوٹے بڑوں کی زبان پر جاری رہتا تھا یہ تھا کہ

تیری میری، میری تیری، پریم کہانی ہے مشکل۔

ایک اور گانا جو ہے تو پرانا لیکن ہنی سنگھ نے ایک نئے انداز سے گا کر جدید دور کے نوجوانوں کے جزبات کی عکاسی کی یہ ہے۔

میرے محبوب قیامت ہو گی

آج رسوا تیری گلیوں میں محبت ہو گی

بہرحال اس دن میں ادھر زمین جوت رہا تھا اور ادھر موبائل پر یہ گانے سن رہا تھا اور سوچوں میں گم تھا کہ اچانک میں نے اپنے لنگوٹیا یار ثاقب کو دور سے آتے ہوئے دیکھا جس کے ہاتھ میں ایک درمیانے سائز کا حسن کارکردگی کا کپ اور ایک عدد رائٹنگ کاپی تھی۔

جاری ہے

Check Also

Ghor Karne Walon Ke Liye Nishaniyan Hain

By Rabia Naz Chishti