1.  Home/
  2. Blog/
  3. Yaseen Malik/
  4. Ayyam e Deewangi (1)

Ayyam e Deewangi (1)

ایامِ دیوانگی (1)

تحریر مجھ پر جوانی کے دنوں میں گزرے ہوئے حالات کی کارگزاری ہے یہ میں اس لئے قرائین سے شیئر کرنا چاہتا ہوں تاکہ وہ اس سے کچھ سبق حاصل کرسکے اور زندگی میں آنے والے اونچ نیچ کیلئے پہلے سے خود کو تیار رکھ سکے۔

بہرحال یہ تحریر میری جوانی کے ان دنوں کی ہے جس میں میرے دل پر کسی نے دستک دی تھی لیکن وہ دستک اس کی طرف سے بے خبری میں دی گئی تھی جس کو میں نے دل پر لے کر بڑی اہمیت دی اور اس دستک کے بعد میں نے اپنے دل کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کھول دئے تھے لیکن اس کے بعد دستک دینے والے نے کبھی اندر داخل ہونے کی زخمت تک نہیں کی حالانکہ میں روز شمعیں جلاتا تھا روز انتظار میں بیٹا رہتا تھا لیکن پھر کبھی بھی وہ دستک دینے والا نہ آیا۔

میں مانتا ہوں کہ دل کے یہ دروازے ایک دن ہمیشہ کیلئے بند ہونے ہی تھے اگر وہ داخل ہو بھی جاتا تو ایک دن اس کا نکلنا ضروری تھا سو اچھا ہوا کہ وہ سرے سے داخل ہی نہیں ہوا کیونکہ اس طرح شمعیں روشن کرتے اور انتظار کرتے کرتے مجھے بے شمار اونچ نیچ سے گزر کر بہت کچھ سیکھنا پڑا، مجھ کو زمانے کے بے رخم موجوں نے تراش تراش کر کہیں کا نہیں چھوڑا، حالات کے ان ہی نشیب و فراز سے گزر کر مجھے اندازہ ہوا کہ پہاڑ اتنے اونچے کیوں ہوتے ہیں اور یہ بھی اندازہ ہوا کہ سمندر اتنے وسیع، بڑے اور خاموش کیوں ہوتے ہیں۔ مجھے اندازاہ ہوا کہ دنیا کے ان شور و غول سے دور رہتے ہوئے عقاب اتنے پرسکون اور بے آواز کیوں ہوتے ہیں اور دنیا کے انہیں شور و غل میں رہ کر چڑیوں میں اتنی نو سنجی کیوں ہوتی ہے۔

مجھے اچھی طرح ادراک ہوا کہ مجھ جیسا انسان تکلیفوں اور مصیبتوں سے کیوں گزرتا ہے۔ مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ غم و الم کا سامنا کرنے والے انسان اور تکلیفوں اور مصیبتوں میں گرے رہنے والے انسان کے درمیان کیا فرق ہے مشکلات کا سامنا کرنے والے انسان کی سوچ کس حد تک گہرائی رکھتی ہے اور منہ میں سونے کی چمچ لئے ہوئے پیدا ہونے والے انسان کی سوچ کتنی گہرائی کا حامل ہوتی ہے۔

میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ دنیا میں خوشی سے بھر پور زندگی گزارنے کیلئے کیا صرف حسن یا دولت ہی کافی ہوتی ہے یا پھر ایسی زندگی حسن اور دولت سے محروم انسان بھی گزار سکتی ہے ایسا میں نے تب محسوس کیا جب ایسے لوگوں کی خودکشیوں کے موت دیکھے جن کی دولت اور خوبصورتی کے قصیدے نگر نگر سنائے جاتے تھے اس کے علاوہ یہ حقیقت مجھ پر تب بھی عیاں ہوا جب حسین و نازنین لوگوں کے ایسے قصیدے سنے جس میں وہ غربت و افلاس کی وجہ سے جسم بھیجنے پر مجبور ہوئے۔

میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ کیا کامیابی کا پیمانہ صرف بنک بیلنس اور شہرت و عزت ہی ہے یا پھر حقیقی کامیابی کو کسی اور پیمانے سے بھی ماپا جاسکتا ہے حالانکہ یہ سبق مجھے تب ملا جب اس ملک کے اعلٰی دولت مند طبقات کا ذکر سنا تو بظاہر تو ان میں کچھ لوگ بنک بلنس، شہرت عزت اور جائداد وغیرہ کی نعمتوں سے مالامال نظر آئے لیکن ذاتی طور پر گھریلوں مسائل، جسمانی بیماریوں، شوگر، موٹا پن اور پتلا پن کے ٹینشنز اور اولاد کی آوارگی وغیرہ کی وجہ سے روتے ہوئے نظر آئے۔

بہرحال اب میں نے سوچا کہ آخری منزل تو قبر ہے تو کیوں نہ کہ ان تجربات کو دوسروں سے شیئر کروں تاکہ ان فانی خیالات و احساسات سے دوسرے لوگ تو کچھ حاصل کرے۔

اس تحریر میں جو بھی احساسات قبضہ تحریر میں لائے گئے ہیں ضروری نہیں کہ حرف آخر ہو بلکہ ہر انسان کے اپنے خیالات ہوتے ہیں ہر انسان کی امیدوں اور خواہشات کے انداز دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں۔ ان خیالات سے کسی کا اختلاف بھی ہوسکتا ہے اور ایسا بھی ممکن ہے کہ کوئی ان پر مجھ سے اتفاق بھی کرے لیکن ہمارا اس تحریر سے مراد صرف اور صرف اندھیرے میں گرنے والے نوجوانوں کو شمع کی ایک جلک مہیا کرنا ہے تاکہ وہ راستے کے رکاوٹوں کو دیکھ سکے یا پھر بٹکے ہوئے کافلوں کیلئے اس بانگ کا کردار ادا کرسکے جو کافلے کو اپنی صحیح منزل تک پہنچانے میں مددگار ہو۔

باقی میں قرائین پہ چھوڑتا ہوں کہ وہ اس کو کسی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

تو آئیے شروع کرتے ہیں۔۔

مجھے آج بھی وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب ہم چھٹی جماعت میں پڑھ رہے تھے تو عربی اور اردو پڑھانے والے استاد ہمیں بہت اچھی اچھی سبق آموز اور جزبات سے بھر پور واقعات سناتے رہتے تھے۔ کبھی کبھار تو وہ ایک ایک واقعے کو کئی کئی دنوں میں سلسلہ وار بیان کرتا رہتا۔ اس کے علاہ وہ ہمیں مستقبل کے حالات کے بارے میں بھی آگاہ کرتے کہ آپ لوگوں پر کس طرح کے حالات آنے والے ہیں اور اپ کو ان کا سامنا کیسے کرنا ہے وغیرہ۔

ویسے تو مجھے آج تک اس کی بہت سی میٹھی میٹھی اور نصیحت آموز باتیں یاد ہے لیکن اس کی وہ بات جو میرے آیام دیوانگی کے موضوع سے تعلق رکھتا ہے یہاں ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ تو ایک دن اس نے ایک طالب علم کی طرف سے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ محبت ایک ایسی بلا ہے جس کے وار سے کوئی بھی انسان بچ نہیں سکتا۔ اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے اس نے لیلٰی اور مجنوں کا وہ واقعہ بھی ذکر کیا تھا کہ ایک دن ایک آدمی نماز پڑھ رہا تھا کہ اسی اثنا میں مجنوں لیلی کے خیالوں میں ڈوبا ہوا اس نمازی کے سامنے سے گزرا جس پر نمازی نے سلام پھیر کر اس کو بہت ڈانٹا اور مارا کہ دیکھتے نہیں میں نماز پڑھ رہا ہوں اور آپ سامنے سے گزرے جس پر مجنون نے ایسا جواب دیا کہ اس نمازی کو لاجواب کردیا کہ عجیب بات ہے میں ایک خاکی انسان (لیلٰی) کی یادوں میں اتنا گم ہوچکا ہوں کہ مجھے آپ نظر نہیں آئے اور اپ اپنے رب سے مخاطب ہوکر بھی فقط میرے سامنے سے گزرنے پر توجہ سے محروم ہوگئے۔

مجھے وہ بھی یاد ہے کہ اس دن استاد کی زبان سے جب میں نے یہ جملہ سنا تھا کہ محبت کی بلا سے کوئی بھی انسان بچ نہیں سکتا تو میں نے استاد کی اس بات سے سخت ناگواری محسوس کی تھی لیکن اس کے بعد مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب مجھے استاد کے اس جملے کا عملی تجربہ ہوا تھا اور واقعی ایسا کچھ محسوس ہوا تھا کہ محبت کی بھلا سے کوئی بھی بچ نہیں سکتا لیکن پھر ایسے دن بھی آئے جب میرے دل و دماغ نے اس عقیدے کو بھی کالعدم کرار دے دیا۔

Check Also

Kya Hum Mafi Nahi Mang Sakte?

By Mohsin Khalid Mohsin