Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Wasim Qureshi
  4. Iblees Jeet Gaya

Iblees Jeet Gaya

ابلیس جیت گیا

"انوکھے بزرگ" کے عنوان سے لکھنا شروع کیا جس میں آپ سب چاچا حق نواز کی سرائیکی زبان میں کی گئی باتوں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ جب جماعت کے ساتھ چلا تو چاچا حق نواز کو دیکھ کر محسوس کیا کہ ایک مکمل کتاب اس بزرگ پر لکھی جا سکتی ہے۔ مگر کل یہ کتاب ادھوری رہ گئی کیوں کہ اس کتاب کا کردار ہمیں بیچ راہ میں چھوڑ کر گھر واپس چلا گیا۔ شدید دکھ ہوا بلکہ ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ وہ چلے گئے ہیں۔ مگر یہی حقیقت ہے۔

کل رائیونڈ مرکز میں بیٹھے ہوئے بار بار اپنی تمام پاکٹس کھنگال رہے تھے اور نوٹ اکٹھے کر رہے تھے۔ تین چار مرتبہ ان پیسوں کو گنتی کیا۔ میں ایک طرف بیٹھا یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد اپنا بیگ اٹھا کر کہنے لگے "تساں اگی تے ونجو، اللہ دی امان، میں پچھو تے ولداں۔ میڈے پیسے مک گئین" آپ لوگ آگے کی طرف جائیں، اللہ کی امان، میں پیچھے یعنی گھر واپس جا رہا ہوں میرے پیسے ختم ہو گئے ہیں"۔ مجھے یہ سن کر جھٹکا لگا، میری نظریں امیر صاحب پر ٹکی ہوئی تھیں۔

میں نے آگے بڑھ کر کہا "کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مل بانٹ کر کریں گے مگر آپ واپس مت جائیں۔ پانچ سات ہزار جو کم ہیں وہ میں کر لوں گا مگر آپ واپس مت جائیں۔ پلیز۔ مگر وہ نہیں مانے۔ سفید پوش تھے یا ممکن ہے کہ کوئی اور وجہ ہو کیوں کہ وہ خود کہہ رہے تھے کہ میری پینشن والے پیسے موجود ہیں ایسی بات نہیں ہے لیکن میں بس واپس جا رہا ہوں۔ وہ ذہنی طور پر بھی بیمار تھے تو آخر میں غصے سے کہا "بس خاموش تھی ونجو۔ اللہ حافظ" اور اپنا بیگ اٹھا کر چلے گئے۔ میں انہیں جاتے ہوئے دیکھتا رہا اور آنسو نکلتے رہے۔

مہنگائی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ پھر جب تشکیل ہوتی ہے تو کافی رقم کرایوں کی مد میں خرچ ہو جاتی ہے۔ چاچا حق نواز شاید پہلے والا سلسلہ سوچ کر آئے تھے مگر اب پانچ سالوں میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ کرایے ڈبل سے زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ گھی وغیرہ کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ وہ شاید جو رقم چالیس دن کا سوچ کر لائے تھے وہ دس دنوں میں ختم ہو گئی تھی۔

اسی دوران والد صاحب کی کال آ گئی تو میں نے سب بتایا ایسے ہمارا ایک ساتھی واپس چلا گیا ہے، تو ابو نے کہا تم خرچہ ذمے لے لیتے ہم کرتے ان کا خرچ، میں نے بتایا کہ ایسا ہی کہا تھا مگر وہ اس بات پر راضی نہیں ہوئے۔ میں اور شفیق صاحب طویل سے طویل سفر پر راضی تھے کہ بس علاقہ ٹھنڈا ہو۔ جماعت کے ساتھیوں نے کہا کہ آپ دونوں کسی اور جماعت کے ساتھ شامل ہونا چاہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔

مگر زیادہ دور کیلئے تین چار ہزار روپے ایک سائیڈ کا کرایہ ہم افورڈ نہیں کر سکتے۔ میں نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ساتھ آئے تھے تو ہر جگہ ساتھ جائیں گے۔ ہم افورڈ کر سکتے ہیں تو اس کا ہر گز مطلب نہیں کہ ہم کسی اور کے ساتھ چلے جائیں۔ یوں ہم نے کوشش کی تشکیل بہت زیادہ دور نہ ہو۔ دو ساتھی مزید پریشان تھے۔ ان کے پاس پیسے کم پڑ گئے تھے شاید۔ وہ بھی مزدور تھے، کسی دکان پر ملازمت کرتے ہیں۔

جانے کس طرح پیسے جوڑ کر نکلے، یہ غریب اور سادہ لوگ اس راہ پر کتنی قربانیاں دے رہے ہیں۔ میں نے کہا "اب آپ سب سے گزارش ہے کہ واپسی کا کوئی نہ سوچے۔ ہم جماعت ہیں فرد نہیں ہیں جماعت ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کا نام ہے۔ پیسے کم ہیں تو پریشان مت ہوں۔ جو اللہ تعالیٰ یہاں لے کر آیا ہے انتظام اسی نے کرنا ہے بس یقین پختہ رکھیں۔ جہاں جس کے پاس کمی ہوئی تو میں اور شفیق صاحب کریں گے"۔

شفیق صاحب نے بھی فوراََ کہا "کوئی مسئلہ نہیں ہے، میں اور وسیم بھائی مل کر کر لیں گے"۔ شکر الحمدُ للہ کہ جماعت مزید تقسیم نہیں ہوئی مگر چاچا حق نواز کی واپسی نے مجھے گھائل کر دیا ہے۔ ان کے آخری الفاظ تھے "وے ابلیسا توں جت گئیں، میں ہار گیاں "۔ چاچا حق نواز کے جانے پر معلوم ہوا کہ بزرگ یہ ہدایت کیوں کرتے ہیں کہ "اعتدال اور میانہ روی اختیار کریں، فضول خرچی سے پرہیز کریں تاکہ کسی غریب ساتھی پر بوجھ نہ پڑے۔ "

سب کے حق میں دعا کیجیے خاص طور پر چاچا حق نواز کیلئے۔

Check Also

Hikmat e Amli Ko Tabdeel Kijye

By Rao Manzar Hayat