Zindagi Bas Arzi (2)
زندگی بس عارضی(2)
قرآن سے لگاؤ بس اس حد تک کہ ایک بار قرآن پڑھ لیا جائے۔ خیر وقت کے ساتھ مجھے ایک مسجد کی امامت مل گئی، ہر ماہ لوگ چندہ کرتے اور مجھے میرا حصہ مل جاتا۔ جب بھی جمعہ کے بعد لوگوں کو چندہ مانگتے ہوئے دیکھتا تو سر جھکا لیتا کہ کیا اس ملک میں ایک امام کو عزت سے کبھی روزگار نہیں ملے گا۔ نکاح خوان کے طور پہ جس دن بلایا گیا، اس دن پہلی بار سوچا کہ کیا میں انسان ہوں؟
جب پہنچا سب سے پیچھے بٹھایا گیا رسمیں ہوتی رہیں، آخر مجھے بلایا گیا نکاح پڑھایا پھر کونے میں بٹھایا گیا کھانے کے نام پر ایک پلیٹ میں چاول اور سالن دیا گیا۔ ڈبڈبائی آنکھوں سے سامنے نظر کی تو دیکھا مجھ سے زیادہ عزت و محبت تو گویے کو دی جا رہی تھی۔ جو ٹھمک ٹھمک کر محفل کو لطف اندوز کروا رہا تھا۔ میری بیوی بیمار ہوئی جہاں جہاں ٹویشن پڑھا رہا تھا کہا ایڈوانس تنخواہ دے دیں۔
کہا اتنے پیسے کہاں سے دیں پہلے ہی اتنی زیادہ تنخواہ دے رہے ہیں۔ کچھ بچت کر لیتے آج کام آجاتا اتنے پیسے؟ میں نے ہاتھ پہ گنا پورا ماہ پڑھا کر چند سو ہاتھ پہ رکھنے والے آج مجھ سے ان پیسوں کا حساب مانگ رہے ہیں۔ قرضہ مانگا کہا، کہاں سے دو گے رمضان آنے دو زکاۃ سے کچھ مدد کر دیں گے، میں رمضان کی آمد تک بیوی کو تڑپتا دیکھتا رہا دانہ ناسور بن گیا، ڈاکٹر نے کہا کینسر ہے۔
پھر روتے ہوئے ہاتھ پھیلایا، بےحس لوگ، کہنے لگے اب تو مر جانا ہے۔ کیوں پیسے ضائع کرتے ہو زکاۃ کے نام پر چند پیسے ہاتھ میں رکھے جو دنوں میں ختم ہوئے، آخر ہسپتال والوں نے جواب دے دیا دوسرے ہسپتال لے کہ گیا، پیسے کے بغیر انہوں نے داخل کرنے سے انکار کر دیا اور پھر اس نیک بخت صابر خاتون نے ہسپتال کے ٹھنڈے برآمدے میں مسکرا کر ساتھ چھوڑ دیا بیٹیاں جواں تھیں۔
نئے سرے سے ہمت پکڑی مگر ایک مولوی کی بیٹیوں کو کون اپناتا کہہ کہا کر ایک جگہ بیٹی کا رشتہ کیا کہنے لگے چلیں آپ جہیز کے خلاف ہیں۔ مگر دنیا دکھاوے کو کچھ تو دیں، پھر انہی لوگوں کے سامنے عزت نفس کو گروی رکھا جنہوں نے ابھی چند دن پہلے ہی بیٹے کی شادی کی تھی، آتشبازی، لائٹنگ، گانا بجانا غرض کہنے لگے کروڑوں لگ گیا۔ اب تو حالات بہت تنگ ہیں میں خاموشی سے دوسرے گھر گیا۔
کہنے لگے اپنے حالات دیکھو اس کے مطابق کام کرو جب توفیق نہیں تو کیوں جہیز دیتے ہو۔ میں نے کہا بس اتنا ہو کہ عزت سے رخصتی کر سکوں، چند ہزار زکاۃ کے ہاتھ میں پکڑائے گئے اور میں سوچتا رہا کہ اس گھر میں میں 13 بچوں کو 1200 ماہوار پر پڑھاتا آیا ہوں، کبھی تنخواہ بڑھانے کی بات نہیں کی اور آج میں احسان کے طور پر چند ہزار لے کر جا رہا ہوں۔ خیر شادی ہوئی اب دو مزید بیٹیاں، مگر وہ پہلی کی طرح خوش قسمت نہ نکلیں۔
ایک بیٹی تیس سال کی ہے، دوسری چھبیس سال کی۔ تیسری بیٹی کے دس سال بعد اللہ نے بیٹا دیا سوچا یہ سہارہ بنے گا پڑھ لکھ کر معاشرے میں باعزت مقام حاصل کرے گا۔ سائنس، کمپیوٹر، میتھ، فزکس، کا استاد ہوگا تو لوگ عزت دیں گے ٹویشن پڑھانے جائے گا لوگ اسکی مرضی کی فیس رکھیں گے۔ مگر یہ نافرمان اولاد درس نظامی کرنا چاہتا ہے یہ میری طرح دھکے کھانا چاہتا ہے یہ دین پڑھنا چاہتا ہے۔
اسے روکو اسے بتاؤ کہ عزت دار اس معاشرے میں دین پڑھانے والا نہیں یہ جب درس نظامی کا نام لیتا ہے۔ میرے سامنے میری دربدر گھومتی زندگی دوڑ جاتی ہے۔ اور، بولتے بولتے استاد محترم نے اپنی سرخ آنکھیں اٹھائیں میری ہچکیاں بندھی ہوئی تھیں۔ ہم لڑکھڑاتے اٹھے اور دروازے سے باہر نکل گئے۔ یہ واقعات حقیقی ہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں قرآن یا اسلامیات پڑھانے والے کو وہ عزت نہیں دی جاتی۔ جو دوسرے شعبوں کو ملتی ہے۔
بچوں کو دنیاوی تعلیم کے لیے مہنگے سے مہنگے سکول میں داخل کروایا جاتا ہے مگر قرآن کی تعلیم کے لیے اس استاد کا انتخاب کیا جاتا ہے جو کم سے کم فیس لے سکولز گرمیوں یا سردیوں کی چھٹیوں میں اپنی مکمل فیس پیشگی حاصل کرتے ہیں۔ مگر قرآن کا استاد اگر دس دن بھی چھٹی کرے اسکی تنخواہ میں سے کٹوتی کی جاتی ہے۔ مہینہ دو مہینہ کی تو بات ہی کیا ہے۔
آج سے پندرہ سال پہلے جو قرآن کا ہدیہ تھا لوگ آج بھی وہ دینے پہ مصر ہیں۔ جب کہ چاہتے ہیں کہ انکے بچوں کو مکمل وقت ملے قرآن جلد مکمل ہو فرض بس ادا ہو۔ آج کے دور میں جہاں فن والا انسان ایک دن میں ہزاروں بھی کما لیتا ہے، وہیں ایک قاری صرف پچاس یا سو روپے روزانہ کی بنیاد پر تعلیم دیتا ہے۔ اس پر بھی پڑھوانے والوں کا احسان۔ اکثر قاری صاحبان کم ہدیہ میں بچوں کو تدریس دیتے ہیں اور جب ان کو ضرورت آپہنچتی ہے۔
تب یہ دنیاوی روزی بانٹنے والے زکاۃ یا صدقہ کے نام پر چند ہزار احسان کے طور پر ادا کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں عالم قاری کی عزت بس مسجد مدرسے تک ہے۔ ہماری مساجد ہمارے مدارس میں امام حضرات، قاری صاحبان کی تنخواہیں اس قدر قلیل ہیں کہ وہ مجبورا دوسرے روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ علماء فکر معاش سے بےفکر ہوں معاشرے میں انکا مقام ہو اور وہ یکسوئی سے اللہ کا پیغام پہنچانے کا فریضہ انجام دیں۔
کہنے کو بہت کچھ ہے، مگر بہت تلخ ہے، بس اس وقت کا انتظار نہ کریں۔ جب جنازہ، نکاح پڑھانے کے لیے کوئی میسر نہیں ہوگا کیوں کہ اس وقت بھی بہت سے فارغ التحصیل علماء دوسرے شعبوں میں قسمت آزمائی کررہے ہیں۔ کیوں کہ دال روٹی تو چلانی ہی ہے، ہاں ایک بات اللہ اس راستے میں آنے والی مشکلات کو علماء کے لیے جنت میں آسانی کا راستہ بنائیں گے مگر ان علماء کا حق روکنے والے، خود سوچیں، زندگی بس عارضی ہے۔