Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Toqeer Bhumla
  4. Zindagi Ka Har Pal Jiyen

Zindagi Ka Har Pal Jiyen

زندگی کا ہر پل جیئیں

اگر کسی بلند و بالا پہاڑ کی چوٹی سے دیکھیں تو لہراتی بل کھاتی دھواں اڑاتی ہوئی ریل کا منظر بڑا ہی دلنشین دکھائی دیتا ہے، صحراؤں، جنگلوں اور برف زاروں کے دشوار گزار رستوں پر مستی سے کوُکتی ہوئی ریل اپنی ہی دھن میں مست اَن گنت حسین مقامات کے درمیان محو سفر رہتی ہے، گردوپیش کے یہ حسین مناظر فطرت کے ایسے شاہکار ہوتے ہیں جہاں ہر کوئی اپنی پوری زندگی بِتانے کی حسرت دل میں چھپائے رکھتا ہے۔

ریل کی کسی بوگی میں کسی کھڑکی کے پاس والی نشست پر بیٹھا ہوا کوئی مسافر جس کے دل و دماغ میں سو طرح کی بھوک کا جھگڑا چل رہا ہو تو وہ ان پر افزا مقامات سے پوری طرح لطف اندوز نہیں ہو پاتا، مسافر کو جتنی دلچسپی ریل کی طوفانی رفتار اور جلد از جلد منزل پر پہنچنے کی ہوتی ہے اتنی دلچسپی اور جلدی اسے نظاروں میں کھونے کی نہیں ہوتی۔

گر کبھی کبھار پل دو پل کے لیے اس کی نگاہ بھٹک کر کھڑکی کے پار دوڑتے ہوئے درختوں اور بھاگتی ہوئی روشنیوں پر پڑ بھی جائے تو سوچوں میں گم بے دھیانی سے دیکھا ہوا کوئی بھی منظر اس کی آنکھ میں پلک جھپکنے جتنے لمحے سے زیادہ دیر نہیں ٹھہر پاتا، اور اگر کبھی شیشے سے چہرہ چپکائے ہوئے سمے اس کے من میں ریل سے باہر کی مکمل دنیا دیکھنے کی خواہش جاگ بھی جائے تو دیگر تمام خیال بھلا کر، جھگڑوں کو ادھورا چھوڑ کر چاہنے کے باوجود بھی وہ کسی منظر کو مکمل اور تادیر نہیں دیکھ سکتا۔

مجھے لگتا ہے، ہم بھی بے جا تفکرات میں گھرے ریل کے اس بے بس مسافر جیسے ہی ہیں، جو گردوپیش سے بے خبر ایک ہی سمت سرپٹ بھاگتی ہوئی زندگی کی ریل پر سوار ہیں، جہاں ہم تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی گر سب سوچوں کو دامن سے جھاڑ کر اپنی مرضی سے زنجیر کھینچنے کی طرف ہاتھ بڑھائیں، اور وقت سے چند پل چرا کر ریل سے باہر کسی ہوش ربا منظر کو تادیر بصارتوں کے قصر میں مہمان کرنا چاہیں، الہڑ مٹیار کے پراندے جیسی کسی بل کھاتی ندی کے کنارے اُگے گلابی پھولوں کے کنج سے کوئی تتلی پکڑنا چاہیں۔

سنہری شام کے دھندلکوں میں ڈوبی کسی حسین وادی کے دامن میں اگی ہوئی نرم سبز گھاس پر ٹمٹماتے ہوئے جگنو کو پکڑ کر ہتھیلی پر دھرنا چاہیں تو اسی لمحے یکدم ریل کی سیٹی ہمارے تخیل کو سبوتاژ کر کے رکھ دیتی ہے، من مرضی کے اسٹیشن پر زنجیر کھینچنے سے پہلے ہی ریل کا بجتا ہوا شنکھ مسافر کو بتلاتا ہے کہ تمھارا سفر تو تقریباً بیت بھی چکا ہے، شاید تھوڑی سی مسافت باقی ہے پھر اگلا اسٹیشن تمھارا ہی آنے والا ہے، یہ ریل اکثر مسافر کو وہاں لے جاتی ہے جہاں وہ جانا نہیں چاہتا اور پھر زبردستی وہاں اتار بھی دیتی ہے جہاں نہ تو مسافر کا پسندیدہ منظر ہوتا ہے اور نہ مسافر کا اسٹیشن ہوتا ہے۔

ریل نے تو گزرتے ہی رہنا ہے، پرانے مسافر کی خالی کی گئی نشست پر نئے مسافر کو کچھ وقت کے لیے جگہ دینی ہی ہے، محض پلیٹ فارم سے چڑھنے اور اترنے کی بجائے، کیوں نہ پھر اس سفر کو بھر پور جی لیا جائے، دوستو ہر پل جینے کا کوئی نہ کوئی بہانہ ضرور تلاش کرتے رہیں، جہاں بھی رہیں وہاں اپنے اردگرد بے وجہ خوشی تخلیق کرتے رہیں، بے سبب مسکراہٹ کا باعث بنتے رہیں، سود و زیاں کے جھگڑوں سے نکل کر آسانیاں پیدا کرتے رہیں۔

Check Also

Lucy

By Rauf Klasra