Wakeup Call
ویک اپ کل
شاید ایک صدی قبل کی بات ہے کہ مسافر جب کسی ہوٹل میں قیام کرتے تو استقبالیہ کاؤنٹر پر اپنے سونے جاگنے کا شیڈول / سیکجوئل لکھواتے ہوئے ساتھ تاکیدی نوٹ لکھواتے کہ مجھے دن یا رات کے فلاں وقت پر ایرپورٹ جانا ہے یا فلاں تقریب میں شرکت کے لیے جانا ہے لہٰذا مجھے بروقت جگا دیا جائے، ہر چھوٹے بڑے ہوٹل میں یہ سروس لازمی مہیا کی جاتی تھی، ان کے پاس ایک الگ رجسٹر ہوتا تھا جس کا نام wake-up call register ہوتا تھا۔
مسافر کے جاگنے کا وقت ہوتا تو استقبالیہ سے مینجر وغیرہ اس شخص کو فون کال کے ذریعے یا روم سروس کے ذریعے بروقت جگا دیتے تھے اور جگانے کا یہ طریقہ کار wake-up call کہلاتا تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ wake-up call کو دیگر معنوں میں بھی استعمال کیا جانے لگا، مثلاً کسی کے ساتھ کوئی ایسا حادثہ پیش آتا جس سے اس کی زندگی بدل جاتی تھی تو اس لمحے کو بھی wake-up call کہا جانے لگا، یا پھر روزمرہ کی زندگی کے معاملات میں کوئی علامت یا اشارہ ایسا ملتا جو خطرے یا بھلے اور برے انجام سے آگاہ کرتا تو اسے بھی wake-up call کہا جانے لگا۔ یعنی ایسا لمحہ جس میں کسی بھی طرح کی کوئی تنبیہ ہو اسے wake-up call کا ہی نام دیا جانے لگا۔
فیس بک، انسٹاگرام اور ٹویٹر جیسے سوشل میڈیائی پلیٹ فارموں کے زیر تسلط ڈیجیٹل دنیا میں، لائکس، شیئرز اور کمنٹس کی لامتناہی اسکرولنگ میں کھو جانا بہت زیادہ آسان اور پرکشش بن چکا ہے۔ فیس بک کی حالیہ عارضی بندش، جو کہ سوشل میڈیا کا سب سے بڑا دیو ہے، نے ان اربوں صارفین کے لیے ایک ویک آپ کال جیسا کام کیا جنہوں نے اپنے آپ کو اس ڈیجیٹل دیو کے بغیر بے بس اور لاچار پایا۔ بہت سے لوگوں کے لیے، یہ گھبراہٹ اور ڈپریشن کا لمحہ تھا، انہیں پہلی بار اس بات کا مکمل احساس ہوا کہ ان کی زندگیاں ان ورچوئل اسپیسز کے ساتھ کتنی گہرائی سے جڑی ہوئی تھیں کہ عارضی بندش کے دوران وہ خود کو ادھورا اور بے بس تصور کررہے تھے۔
لیکن ہر قسم کی افراتفری اور الجھاؤ کے درمیان بھی خود شناسی کا موقع موجود ہوتا ہے اگر کوئی سوچے تو، ہم اپنا اتنا قیمتی وقت ان پلیٹ فارمز پر کیوں صرف کرتے ہیں؟ ہم فیڈز اور ٹائم لائنز کے ذریعے لامتناہی اسکرولنگ کرکے اپنی ذات کے کون سے خلا کو پر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا بہت سے لوگوں کے لیے کمفرٹ زون کی ایک نئی شکل بن گیا ہے، ایک ایسی جگہ جہاں ہم ڈیجیٹل ڈوپامائن کے زیر اثر، زندگی کی حقیقتوں سے، تلخ سچائیوں سے، فرار تلاش کرنے کے چکر میں ذہنی خلفشار حاصل کرتے جارہے ہیں۔ ہم نفسیاتی طور پر اپاہج ہوتے جا رہے ہیں۔
اپنے جذبوں کو درست سمت مہیا کرنے، حقیقی رشتوں کو پروان چڑھانے اور دنیا کے لیے بامعنی و مثبت کام کرنے کے بجائے، کولہو کے بیل کی مانند ہم اپنی زندگیوں کو حکمت و دانش کے استعمال کے بغیر ہی گزارنے کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں، ہم اپنی زندگیوں کا موازنہ نیوز فیڈ میں چمکتی دمکتی ہوئی Curated Highlight Reels سے کرتے ہیں، اور لائکس اور کمنٹس کے ذریعے اپنی پسند کا اظہار کرکے بے عقل زندگی پر مہر بھی ثبت کرتے ہیں۔
لیکن زندگی ہمارے فالورز کی تعداد یا ہماری تازہ ترین پوسٹ پر ڈھیروں لائکس سے کہیں زیادہ بہت زیادہ ہے۔
سوشل میڈیا کمفرٹ زون سے آزاد ہونے کے لیے ہمت، استقامت اور خود آگاہی کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب ہے ایک قدم پیچھے ہٹنا اور اپنی ترجیحات کا از سر نو جائزہ لینا، اور اپنی توانائی کو ان سرگرمیوں کی طرف موڑنا جو ہماری حقیقی زندگی کی حقیقی دنیا پر مثبت اثرات مرتب کرسکیں۔