Taiwan
تائیوان
پوری دنیا میں استعمال ہونے والی اسمارٹ فون ٹیکنالوجی، کمپیوٹر ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، جدید کاروں، جدید طبی آلات اور دیگر ان گنت ٹیکنالوجی کی دنیا میں جتنے بھی بڑے بڑے نام بلکہ ٹیکنالوجی کے دیو ہیں وہ سب ایک چھوٹے سے ملک کے محتاج ہیں۔
وہ اکلوتا ملک ساٹھ فیصد تک پوری دنیا میں استعمال ہونے والے ان گنت الیکٹرانک آلات کے لیے ایک ایسا دماغ بناتا ہے جس کے بغیر کوئی بھی جدید ٹیکنالوجی چلنے سے قاصر ہے۔
جدید ٹیکنالوجی سے لیس دماغ کو نیم موصل یا سیمی کنڈکٹرز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان سیمی کنڈکٹر سرکٹس، چپ یا مائیکرو چپ کے علاوہ وہ ملک دیگر ایسے پرزہ جات فراہم کرتا ہے جن کے پائے کا پوری دنیا میں کوئی متبادل نہیں ہے۔
مشہور زمانہ ایپل کا سمارٹ فون "آئی فون" بھی انہی کی ٹیکنالوجی سے اپنی انفرادیت اور برتری قائم رکھے ہوئے ہے۔
ملٹن فریڈمین، جنہوں نے 1976 میں معاشیات کا نوبل انعام حاصل کیا تھا، ان سے ایک دن سوال کیا گیا کہ ان کی نظر میں ان کے وطن کے علاوہ دوسرا بہترین ملک کون سا ہے؟
فریڈمین کا جواب تھا: تائیوان۔
یہ جواب سب کے لیے حیرانی لیے ہوئے تھا اور جب تائیوان کے بہترین ہونے کی وجہ دریافت کی گئی تو جواب تھا: کیونکہ یہ قدرتی وسائل سے محروم ملک ہونے کے باوجود حیرت انگیز قوم کا مسکن ہے۔
تائیوان کی زمین پتھریلی ہے اور پہاڑ بنجر ہیں۔ سمندر میں گھرا ہونے کے باعث اس کا زیادہ وقت طوفانوں سے نمٹنے میں گزرتا ہے، ایشیائی ملک ہونے کے باوجود اسے ہر چیز درآمد کرنا پڑتی ہے، یہاں تک کہ تیل، ریت اور بجری بھی۔
پھر بھی اس کے پاس دنیا کا چوتھا بہترین مالیاتی ذخیرہ ہے، کیونکہ اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ معدنیات کی تلاش میں بنجر زمین کو کھودنے پر وسائل جھونکنے کی بجائے ہمیں اپنے بچوں کے ذہنوں میں کھدائی کرنے اور عقل و منطق والی تخلیقی کانیں دریافت کرنے کی ضرورت ہے، اور ان کا یہی انتخاب انہیں پوری دنیا میں ممتاز کرتا ہے۔
انہوں نے اس صدی کی سب سے بہترین دریافت کی ہے جسے انسانی توانائی کہا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صرف ایک ہی صدی میں کسی ملک کی ترقی کی پیمائش ممکن ہے اور اکیسویں صدی میں تائیوان نے یہ کر دکھایا ہے۔ مستقبل کی قوموں کی طاقت اور دولت کا تعین جس بات سے ہوگا وہ قدرتی وسائل یا ان سے حاصل ہونے والی آمدنی کا نہیں ہوگا، بلکہ ہر چیز کو پس پشت ڈال کر سب سے پہلے ایک کامیاب استاد کو "تخلیق" کرنا ہے جو بچوں کی تربیت اس نہج پر کرے کہ ان کے اندر سے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو کھوج کر باہر نکالے، پھر نونہالوں میں ان صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں سنجیدگی پیدا کرے۔
جدید دنیا میں یہی سب سے سب بڑی ترقی ہے کہ آپ ایسے استاد تخلیق کر لیتے ہیں جو اپنی توانائی بچوں کو نصاب سکھانے پر خرچ کرتے ہیں، نہ کہ انہیں یہی بتانے میں مصروف رہتے ہیں کہ ہم سونے، ہیرے اور تیل جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہیں۔ سب سے بڑے وسائل "تعلیم، تعلیم کے نتائج اور ان کا معیار ہیں"۔ کوئی بھی ملک جس کا انحصار اگر تیل، گیس اور ہیروں پر ہو، مگر وہ اس کا صحیح استعمال کرتے ہوئے افراد کی تعلیم و تربیت اور ان کی شخصی ترقی پر خرچ نہ کرے تو یہ سب بیکار ہے۔